1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنرل راحيل شريف کا دورہ افغانستان

شکور حيم، اسلام آباد17 دسمبر 2014

پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردانہ حملے میں کُل 148 افراد کی ہلاکت کے ایک دن بعد پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے آج افغانستان کا ايک ہنگامی دورہ کیا۔

https://p.dw.com/p/1E6O0
تصویر: picture-alliance/dpa

جنرل راحیل شریف کے اس مختصر دورے میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان اختر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ بدھ کی صبح کابل پہنچنے کے بعد جنرل شریف نے افغان صدر اشرف غنی کے علاوہ آئی سيف کمانڈر جنرل جان ایف کیمبل سے بھی ملاقات کی۔

بعد ازاں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق جنرل راحیل شریف کے دورے میں پاک افغان سرحد پر سلامتی سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بیان کے مطابق، ’’متعلقہ حکام کے ساتھ پشاور واقعے سے متعلق اہم خفیہ معلومات شيئر کی گئیں۔‘‘

افغان صدر اشرف غنی نے پاکستانی بری فوج کے سربراہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سر زمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے ليے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور اگر اس بارے میں کوئی بھی نشان ملا تو اس سے جلد سے جلد نمٹا جائے گا۔ جنرل راحیل شريف نے بھی افغان صدر کو دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کوششیں کرنے کے ساتھ ساتھ افغان حکومت کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ بیان کے مطابق آئی سيف کمانڈر نے بھی اپنی ذمہ داری میں آنے والے علاقوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے ليے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

پشاور حملے ميں ہلاک شدگان کی تعداد 148 ہو گئی ہے
پشاور حملے ميں ہلاک شدگان کی تعداد 148 ہو گئی ہےتصویر: AFP/Getty Images/A Majeed

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق آرمی چیف کی افغان حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں مشترکہ طور پر دہشت گردوں کے خاتمے کا عزم کیا گیا۔

عسکری ذرائع کے مطابق جنرل راحیل شريف نے اپنے دورہ کابل میں افغان حکام کے ساتھ ان خفیہ معلومات کا تبادلہ بھی کیا، جن کے تحت پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردانہ حملہ کرنے والے دہشت گرد کارروائی کے دوران مسلسل افغانستان میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ رابطے میں رہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ جون میں پاکستان نے اپنے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے سے قبل اور اس کے بعد بھی افغان حکام کو سرحد پار پناہ لینے والے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا تھا۔

تاہم پاکستانی حکام افغان حکام کی جانب سے مطلوبہ تعاون نہ ملنے کی شکایت کرتے رہے ہیں۔ اسی سبب سابق افغان صدر کرزئی کے دور حکومت کے آخری دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشدگی میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔

افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اسی ليے ماضی کے برعکس ایک دوسرے کے خلاف بیانات کی بجائے پاکستانی آرمی چیف نے خود کابل جا کر صورتحال سے آگاہ کرنا مناسب سمھجا۔

دفاعی امور کے تجزیہ کار بریگڈئیر (ر) ايس منیر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’میرے خیال میں یہ ایک تبدیلی ہے اور اس کی وجہ اشرف غنی کی قیادت میں بننے والی نئی افغان حکومت ہے۔ دونوں جانب کی قیادت اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ دہشت گردی کو مشترکہ طور پر ختم کیے بغیر دونوں ممالک میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ آنے والے دنوں میں دونوں جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کے ليے تعاون واضح طور پر نظر بھی آئے گا۔‘‘

اس سے قبل بدھ کے روز وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کو مل کر دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ پشاور میں ملک کی سیاسی قیادت کے اجلاس کے بعد ايک مشترکہ نیوز کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کچھ ایسے دہشت گرد ہیں، جو افغانستان میں بھاگ گئے ہیں اور اب دونوں حکومتیں مل کر ان کا پیچھا کریں گی۔