جماعت الاحرار کے حملوں میں تیزی کیوں؟
30 ستمبر 2016جماعت الاحرار کا موقف ہے کہ یہ کارروائیاں اُس فوجی آپریشن کے خلاف کی جا رہی ہیں، جس میں اس تنظیم کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ یہ تنظیم 2014ء میں تحریک طالبان پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد وجود میں آئی تھی۔ اس کے بعد سے اس کے دہشت گرد گاہے بگاہے حملے کرتے رہے ہیں تاہم ستمبر کے مہینے میں اس تنظیم نے پاکستان میں کی جانے والی دس دہشت گردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی۔ ان میں وہ حملہ بھی شامل ہے، جس میں ایک مسجد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس واقعے میں 36 افراد لقمہ اجل بننے تھے، جن میں بچے بھی شامل تھے۔
امریکا جماعت الاحرار کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ سلامتی کے ادارے پاکستان میں سرگرم تمام دہشت گردوں گروپوں میں سے جماعت الاحرار کو سب سے زیادہ شدت پسند قرار دیتے ہیں۔ اسی تنطیم نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور 2016ء کے آغاز پر لاہور کے ایک پارک پر ہونے والے حملے میں بھی یہی تنظیم ملوث تھی۔ اس دوران پاکستان میں دہشت گردی کے کچھ واقعات تو ایسے بھی ہیں، جن کی ذمہ داری ایک سے زائد شدت پسندوں گروپوں نے قبول کی تھی۔ مثال کے طور پر اگست میں کوئٹہ کے ایک ہسپتال میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے قبول کی تھی جبکہ تفتیشی اداروں کا کہنا تھا کہ یہ جماعت الاحرار کی کارستانی تھی۔ اس حملے میں تقریباً 80 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر وکیل تھے۔
انسداد دہشت گردی یونٹ کے ایک ذمہ دار نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تنظیم پاکستان کے افغانستان سے ملنے والے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ جماعت الاحرار اپنے حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں بیٹھ کر کرتی ہے او وہیں پر شدت پسندوں کو تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ پاکستانی فوج نے 2010ء میں مہمند ایجنسی میں داخل ہو کر تمام شدت پسند تنظیموں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ تاہم اب کہا جا رہا ہے کہ اب دوبارہ سے مہمند ایجنسی میں جماعت الاحرار کی موجودگی کو محسوس کیا جاتا ہے۔ مہمند ایجنسی کو اس تنظیم کا گڑھ کہا جاتا ہے۔