1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جسم کے لیے مفید رنگین پٹیاں

امجد علی13 جنوری 2015

آج کل یورپ کے پارکوں میں اکثر ایسے لوگ نظر آتے ہیں، جو جسم کے مختلف حصوں پر کنیزیو ٹیپس کہلانے والی رنگا رنگ پٹیاں لگا کر دوڑ لگا رہے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ پٹیاں درد کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1EJTR
تصویر: picture alliance/chromorange/E. Weingartner

آج کل پیشہ ور ایتھلیٹس اکثر ایسی پٹیاں لگائے نظر آتے ہیں۔ اُن کی دیکھا دیکھی اب ورزش کے لیے دوڑ لگانے والے عام افراد نے بھی ان پٹیوں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ کسی کے ہاں یہ پٹی بازو یا ٹانگ پر لگی نظر آتی ہے تو کسی نے اسے پاؤں یا شانے پر چسپاں کر رکھا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ انہیں گردن، کمر یا پیٹ پر بھی لگا لیتے ہیں۔

ان پٹیوں کو کنیزیو ٹیپس کا نام انسانی حرکت کے علم کنیزیالوجی کی مناسبت سے دیا گیا ہے۔ جرمن شہر کیمپٹن میں کھیلوں کے شعبے کے ایک فزیوتھیراپسٹ جان لانگن ڈوئن نے ان پٹیوں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’کاٹن اور لچکدار پولیمر کو ملا کر بنائی گئی ان پٹیوں میں چپکنے والا ایسا لیس دار مادہ استعمال کیا جاتا ہے، جو گرم ہونے کی صورت میں فعال ہو جاتا ہے اور جِلد کو سکون دیتا ہے‘۔

گولف کی امریکی خاتون کھلاڑی مِشیل وی کنیزیو پٹیاں پہنے ہوئے
گولف کی امریکی خاتون کھلاڑی مِشیل وی کنیزیو پٹیاں پہنے ہوئےتصویر: picture alliance/doa/J. Bazemore

جہاں ماضی میں ایتھلیٹس کی جانب سے استعمال کی جانے والی سفید پٹیاں بہت زیادہ سخت ہوتی تھیں، وہاں انتہائی چمکدار اور نمایاں رنگوں والی یہ پٹیاں انسان کی جسمانی حرکت میں کسی بھی طرح سے رکاوٹ کا باعث نہیں بنتیں۔

ان پٹیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پٹھوں اور جوڑوں میں درد اور سُوجن کو کم کرتی ہیں، اُن کی بحالی اور علاج میں مدد دیتی ہیں اور اُنہیں مطلوبہ سہارا فراہم کرتی ہیں۔ پہلے پہلے جاپانی معالج کینزو کازے نے یہ پٹیاں 1970ء کے عشرے میں متعارف کروائی تھیں جبکہ انہیں اصل شہرت بیجنگ میں 2008ء میں منعقد ہونے والے اولمپک کھیلوں کے دوران حاصل ہوئی۔ اب متعدد کمپنیاں اس طرح کی پٹیاں بنا رہی ہیں۔

2012ء میں لندن میں اولمپک کھیلوں کے دوران بِیچ والی بال کی خاتون جرمن کھلاڑی کاترین ہولٹ وِک کنیزیو پٹیاں پہنے ہوئے ہے
2012ء میں لندن میں اولمپک کھیلوں کے دوران بِیچ والی بال کی خاتون جرمن کھلاڑی کاترین ہولٹ وِک کنیزیو پٹیاں پہنے ہوئے ہےتصویر: Reuters

جرمن شہر کاسل میں انٹرنیشنل ٹیپنگ ایسوسی ایشن کی ہیڈ انسٹرکٹر ساشا زائیفرٹ کہتی ہیں کہ ’یہ ٹیپ اکثر محدود نقل و حرکت اور پٹھوں کی کمزوری کے کیسز میں استعمال کی جاتی ہے‘۔ ابھی یہ بات مکمل طور پر نہیں جانی جا سکی ہے کہ یہ ٹیپ کام کیسے کرتی ہے۔ ایک مفروضہ یہ ہے کہ یہ ٹیپ جِلد کے اندر درد کا پیغام ارسال کرنے والے خلیوں کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ زائیفرٹ کہتی ہیں کہ ’یہ ایسے ہی ہے کہ جب ہمیں کہیں چوٹ لگتی ہے، تو ہم جسم کے اُس حصے کو دباتے ہیں اور دبانے سے درد میں کمی محسوس ہوتی ہے‘۔

کسی جوڑ یا پٹھے کو سہارا دینا مقصود ہو تو اس ٹیپ کو دونوں طرف سے کھینچ کر اور اُس میں تناؤ پیدا کرنے کے بعد جسم پر چسپاں کیا جاتا ہے۔ جِلد سے لمفی مادوں کو باہر نکالنا مقصود ہو تو ٹیپ کو کھینچے بغیر نرم اور ڈھیلے انداز میں جسم پر لگا دیا جاتا ہے۔ ٹیپ لگانے سے پٹھے پُر سکون ہو جاتے ہیں اور پھر ورزش کرنے میں بھی آسانی رہتی ہے۔ ماہرین البتہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ یہ ٹیپیں ’باقاعدہ علاج کا کوئی حقیقی متبادل نہیں ہیں‘۔

کمر کی تکلیف میں مبتلا حاملہ خواتین کے لیے بھی یہ پٹیاں ایک نعمت سے کم نہیں ہوتیں۔ کنیزیو پٹیاں کھلے زخموں پر نہیں لگائی جانی چاہییں۔