1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستازبکستان

شولس وسطی ایشیا کے تین روزہ دورے کے آغاز پر ازبکستان میں

15 ستمبر 2024

وفاقی جرمن چانسلر اولاف شولس وسطی ایشیائی جمہوریاؤں کے اپنے تین روزہ دورے کے آغاز پر اتوار پندرہ ستمبر کے روز ازبکستان پہنچ گئے۔ ان کے اس دورے کے مرکزی موضوعات ترک وطن، تیل اور روس کے ساتھ موجودہ کیشدگی بتائے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ke2X
ازبکستانن کا شہر سمرقند، جرمن چانسلر کے وسطی ایشیا کے دورے کی پہلی منزل
ازبکستانن کا شہر سمرقند، جرمن چانسلر کے وسطی ایشیا کے دورے کی پہلی منزلتصویر: Offenberg/picture alliance/Zoonar

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ آج اتوار کے روز اس دورے پر روانہ ہونے والے چانسلر شولس وسطی ایشیا کے اپنے اس دورے کے پہلے مرحلے میں ازبکستان کے دارالحکومت سمرقند پہنچ گئے ہیں۔

سمرقند کے تاریخی شہر میں جرمن چانسلر ازبک صدر شوکت میرزیوئیف کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں اور ساتھ ہی وہ کئی دوطرفہ معاہدوں پر دستخط بھی کریں گے۔

چین میں وسطی ایشیائی رہنماؤں کی ملاقات ایک 'سنگ میل'

ان میں ایک ایسا دوطرفہ معاہدہ بھی شامل ہے، جس کے تحت ازبکستان کے ہنرمند کارکنوں کو ترک وطن کر کے جرمنی آنے میں سہولت دی جائے گی اور ساتھ ہی ان ازبک باشندوں کی جرمنی سے روانگی میں بھی آسانیاں پیدا کی جائیں گی، جن کو قانوناﹰ جرمنی چھوڑ دینا ہے۔

سمرقند، بیش قیمت عالمی ثقافتی ورثہ

اتورا کی سہ پہر سمر قند پہنچنے کے بعد جرمن چانسلر کی پہلی مصروفیت اس تاریخی شہر کے ریگستان پبلک اسکوائر پر چہل قدمی تھی، جس کے بعد ان کی اگلی منزل 17 ویں صدی میں تعمیر کردہ تاریخی تلہ کاری مسجد تھی۔

جرمن چانسلر شولس، دائیں، اور ازبک صدر شوکت میرزیوئیف کی برلن کے چانسلر آفس میں لی گئی ایک تصویر
جرمن چانسلر شولس، دائیں، اور ازبک صدر شوکت میرزیوئیف کی برلن کے چانسلر آفس میں لی گئی ایک تصویرتصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

سابق قازق صدر کے بھتیجے سے تیئیس کروڑ ڈالر کے جواہرات برآمد

سمر قند کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ازبک شہر اقوام متحدہ کے سائنسی، تعلیمی اور ثقافتی ادارے یونیسکو کی تیار کردہ عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ اس سے اصولاً مراد یہ ہے کہ ایسا ورثہ چاہے کسی بھی ملک میں ہو، وہ مجموعی طور پر انسانیت کی میراث سمجھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ماضی میں سمرقند شہر تاریخی شاہراہ ریشم کہلانے والے راستے پر واقع کلیدی اہمیت کا حامل ایک مقام بھی رہا ہے۔

قزاقستان میں پانچوں وسطی ایشیائی جمہوریاؤں کی سمٹ

جرمن چانسلر اولاف شولس خطے کے اپنے اس دورے کے دوران ازبکستان سے کل پیر کے روز قزاقستان چلے جائیں گے، جو پورے وسطی‌ ایشیا کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک اور خطے کی سب سے بڑی معیشت بھی ہے۔

کرغزستان اور تاجکستان میں سرحدی جھڑپیں: تقریباً 100 ہلاک

پیر اور منگل کے روز قزاقستان میں اپنے قیام کے دوران چانسلر شولس ماضی میں سابق سوویت یونین کا حصہ رہنے والی ان پانچو‌‌ں وسطی ایشیائی جمہوریاؤں کی ایک علاقائی سربراہی کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے۔

یہ پانچ جمہوریائیں ازبکستان، قزاقستان، کرغزستان، ترکمانستان اور تاجکستان ہیں، جو آج بھی کافی حد تک روس اور چین جیسی بڑی طاقتوں کے زیر اثر ہیں۔

برلن میں جرمنی اور پانچوں وسطی ایشیائی جمہوریاؤں کے رہنماؤں کی گزشتہ سمٹ کے موقع پر لی گئی گروپ فوٹو
برلن میں جرمنی اور پانچوں وسطی ایشیائی جمہوریاؤں کے رہنماؤں کی گزشتہ سمٹ کے موقع پر لی گئی گروپ فوٹوتصویر: Sandra Steins/Presse- und Informationsamt der Bundesregierung/picture alliance

جرمنی زیادہ گہرے تعلقات کا خواہش مند

چانسلر اولاف شولس کی قیادت میں جرمنی کی خواہش ہے کہ برلن اور وسطی ایشیائی جمہوریاؤں کے باہمی تعلقات کو مزید فروغ دیا جائے۔ اسی سوچ کے پیش نظر گزشتہ برس جرمنی نے ان ممالک کے ساتھ ایک اسٹریٹیجک پارٹنرشپ معاہدہ بھی کیا تھا، جو معیشت اور توانائی سے لے کر تحفظ ماحول تک بہت سے شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔

قزاقستان میں مذاکرات کا ایجنڈا

قزاقستان میں جرمن چانسلر کے سیاسی مذاکرات کا مرکزی موضوع جرمنی کو تیل اور گیس کی فراہمی ہو گا۔ اس کے علاوہ اولاف شولس روس کے خلاف عائد کردہ پابندیوں پر بھی گفتگو کریں گے۔

قزاقستان میں یہ بات چیت اس لیے ضروری ہو گی کہ آستانہ حکومت پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ایسے بالواسطہ راستے نکال لیتی ہے، جن کی مدد سے روس کے خلاف عائد کردہ تجارتی پابندیوں کی بظاہر خلاف ورزی بھی نہ ہو اور ماسکو کے ساتھ تجارت بھی ہوتی رہی۔

قزاقستان: دنیا بھر میں یورینیم کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک

فروری 2022ء میں روس کی طرف سے یوکرین کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد سے جرمنی وسطی ایشیائی خطے کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ گہرا بھی بنانا چاہتا ہے اور زیادہ متنوع بھی۔

ماضی میں وسطی ایشیائی ممالک کا بہت زیادہ انحصار روس اور چین کے ساتھ قریبی اقتصادی روابط پر ہوتا تھا، لیکن اب یہ خطہ خود بھی اپنے لیے زیادہ متنوع بین الاقوامی تعلقات کا خواہش مند ہے۔

م م / ا ا (ڈی پی اے)