جرمن صدر پر ایک جماعت کو خبطی کہنے کا الزام
25 فروری 201425 فروری کو جرمن شہر کارلسروہے میں قائم وفاقی آئینی عدالت نے صدر یوآخم گاؤک کے مقدمے کی سماعت کی۔ این پی ڈی کا کہنا ہے کہ صدر نے اپنے ایک خطاب میں اُن کی جماعت کو خبطی کہا اور یہ ایک جانبدار بیان ہے۔ اس جماعت کا کہنا ہے کہ سربراہ مملکت کو مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ اس موقع پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یوآخم گاؤک نے واقعی این پی ڈی کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں؟ برلن یونیورسٹی قانون کے شعبے سے منسلک پروفیسر بوہمے نیسلر کہتے ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے۔ ’’آزادی اظہار کی جہاں تک بات ہے تو وفاقی صدر اور عام آدمی کے لیے قوانین الگ الگ ہیں‘‘۔ پروفیسر نیسلر کا مزید کہنا ہے شاید گاؤک نے اُس موقع پر جماعت کے بجائے صرف مظاہرین کو خبطی کہا ہو۔
این پی ڈی گاؤک کے جس بیان کا حوالہ دے رہی ہے وہ انہوں نے چند ماہ قبل پارلیمانی انتخابات کے دوران دیا تھا۔ اُن دنوں دارالحکومت برلن کے ایک خاص علاقے کی فضا میں تارکین وطن کے حوالے سے کافی کشیدگی پائی جاتی تھی۔ دائیں بازو کے حلقوں نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر ملکیوں کے خلاف آوازیں اٹھانا شروع کر دی تھیں۔ اُس موقع پر صدر گاؤک نے اسکول کے تقریباً چار سو طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جرمنی کو ایسے شہریوں کی ضرورت ہے، جو سڑکوں پر نکل کر ان خبطیوں کو ان کی حدود سمجھائیں۔
پروفیسر بوہمے نیسلر کے بقول جرمنی میں صدر کی اختیارات بہت محدود ہیں۔ اسی وجہ سے اسے بیان دیتے وقت بہت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔ ’’ آئین کی رو سے دیکھا جائے توصدر کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک انضمام ہے۔ یہ ایک ایسا عہدہ ہے، جس کا کام عوام کے ہر طبقے کو متحد رکھنا اور ان کی نمائندگی کرنا ہے۔ اسی وجہ سے صدر کا سیاسی معاملات سے لاتعلق ہونا بہت ضروری ہے اور اِسے کسی سیاسی جماعت کے بارے میں رائے قائم کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔‘‘
وفاقی جرمن آئینی عدالت اگر اس مقدمے میں صدر کے خلاف فیصلہ بھی دے دیتی ہے تو گاؤک کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ کسی کو صرف خبطی کہنے سے ان کو صدر کے عہدے سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے عوامی سطح پر صدر کی ساکھ ضرور متاثر ہو سکتی ہے۔