1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتجرمنی

جرمن حکومت شدت پسند سرکاری ملازمین سے چھٹکارے کے لیے کوشاں

20 فروری 2023

نئے مجوزہ قانون کے ذریعے انتہا پسند سرکاری ملازمین کی برطرفی کے عمل کو تیز اور آسان بنایا جائے گا۔ فی الحال سرکاری ملازمین کو ہٹانے کے لیے تادیبی طریقہ کار مکمل ہونے میں اوسطاً چار سال لگتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4NkZP
Prozess Franco A OLG Frankfurt
تصویر: Arne Dedert/dpa/picture alliance

جی ہاں، جرمنی کی مسلح افواج، پولیس اور عدلیہ میں دائیں بازو کے انتہا پسند موجود ہیں۔ اگرچہ ایسے سرکاری ملازمین کی تعداد نسبتاﹰ کافی کم ہے لیکن  وہ جرمن قانون کی حکمرانی پر عوامی اعتماد کمزور کر سکتے ہیں۔

اسی لیے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی وفاقی جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر تادیبی قانون میں تبدیلی پر زور دے رہی ہیں تاکہ انتہا پسند سرکاری ملازمین کی برطرفی کے عمل کو  آسان بنایا جائے۔ اس وقت ایسے سرکاری ملازمین کو ہٹانے کے لیے تادیبی طریقہ کار مکمل ہونے میں اوسطاً چار سال لگتے ہیں، جس کے دوران ملزمان اپنی پوری تنخواہ وصول کرتے ہیں۔

Nancy Faeser
جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزرتصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے لیے خطرہ؟

فیزر نے بدھ کو کہا، ''ہم اپنی جمہوری آئینی ریاست کو اندرونی شدت پسندوں کے ہاتھوں سبوتاژ نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر ریاست کی سالمیت کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے لیے خاص طور پر خطرناک ہے۔

فیزر کی اس مجوزہ منصوبہ بندی کا محرک وفاقی جرمن فوج کے ایک  سابق اہلکار  فرانکو اے کی نوعیت کے مقدمات سے نمٹنا ہے۔ اس  ایک انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند پرشامی پناہ گزین کا روپ دھارتے ہوئے دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔ اس سابقہ فوجی کو اس سازش کے الزامات کے بعد قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ دائیں بازو کی انتہا پسند  نام نہاد Reichsbürger یا سلطنت کے شہری کہلانے والی سازشی تحریک نے بھی ریاست کا تختہ الٹنے کی کوشش کی، جب کہ جرمنی کی ملکی خفیہ ایجنسی )بی ایف وی( نے  ایک جج جینز مائیر کو بھی دائیں بازو کے انتہا پسند نظریات کا پیروکاربتایا  ہے۔ دائیں بازو کے انتہا پسند نظریے کے ان تمام معاملات میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے آئین کو برقرار رکھنے کا حلف اٹھارکھا تھا۔

فیزر نے کہا، ''جو کوئی بھی ریاست کو مسترد کرتا ہے اسے اس کے لیے کام نہیں کرنا چاہیے اور انتہا پسندی کے ہر معاملے کے نتائج برآمد ہونے چاہییں۔‘‘

قانون میں مجوزہ تبدیلی پر شکوک وشبہات

اگر جرمن پارلیمنٹ فیزر کے بل کو منظور کر لیتی ہے تو حکام انتظامی ایکٹ کے ذریعے آئین کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی شخص کو عہدے سے ہٹا سکیں گے۔ اب تک انہیں ایسا کرنے کے لیے قانونی کارروائی کرنا پڑی ہے۔ تاہم بہت سے ماہرین کو تادیبی قانون میں مجوزہ  تبدیلی پر بہت کم اعتماد ہے۔

انتظامی ججوں کے جرمن اتحاد کے مطابق، ''یہ بات مشکوک ہے کہ آیا تادیبی کارروائیوں میں تیزی لانے کا ہدف درحقیقت حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘جرمنی کے سرکاری ملازمین کی تقریباً 1.3 ملین ارکان پر مشتمل ایک تنظیم سول سروس ایسوسی ایشن  بھی اسی طرح کے شکوک و شبہات کا شکار ہے۔

جرمن ٹریڈ یونین کنفیڈریشن کا یہاں تک خیال ہے کہ ان اصلاحات کا اثر الٹا ہو سکتا ہے کیونکہ متاثرہ افراد سول سروس سے اپنی برطرفی کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی اپنی برطرفی کے خلاف قانونی چارہ جوئی، ان کا تسلیم شدہ آئینی حق ہے۔

بظاہر فیزر بھی سرکاری ملازمین کے اس حق کو تسلیم کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''اس سلسلے میں کچھ بھی تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ انتظامی عدالتیں اب بھی فیصلوں پر نظرثانی کر سکتی ہیں۔‘‘ جرمن وزیر داخلہ کے اس بیان کا مطلب طویل عدالتی مقدمات کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

Innenministerkonferenz in Rust
ریاست باڈن ورٹم برگ کے وزیر داخلہ تھامس شٹروبلتصویر: Philipp von Ditfurth/dpa/picture alliance

ایک رہنما ریاست

ریاست باڈن ورٹم برگ کے وزیر داخلہ تھامس شٹروبل وفاقی وزیر داخلہ نینسی فریز کے ان اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔ اس جنوب مغربی ریاست نے سن 2008 سے انتہا پسند سرکاری ملازمین کو تیزی سے ہٹانے کی اجازت دے رکھی ہے۔

قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے رکن شٹروبل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم بجا طور پر اپنے سرکاری ملازمین سے آزادی، جمہوریت اور ہماری آئینی ریاست کے لیے کھڑے ہونے کی توقع رکھتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، "جب دائیں بازو کے انتہا پسند کام کر رہے ہوں تو فوری اور فیصلہ کن کارروائی کی جانی چاہیے۔‘‘

فیزر کے مسودہ قانون کو واضح طور پر اس طرح بنایا گیا ہے جس طرح سے باڈن ورٹم برگ میں کام کیا جاتا ہے، جہاں سرکاری ملازمین کے لیے واضع کردہ ضوابط ''دس سالوں سے موثر ثابت ہوئے ہیں۔‘‘

تاہم  شٹروبل کے ترجمان یہ بتانے سے قاصر تھے کہ اب تک کتنے سرکاری ملازمین کو غیر آئینی اقدامات پر ان کے عہدوں سے ہٹایا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاست اس طرح کی برطرفیوں کے بارے میں اعدادوشمار اکٹھے نہیں کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''وزارت داخلہ نے حالیہ برسوں میں انتہا پسندانہ سرگرمیوں پر کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی ہے۔‘‘

Deutschland Bundeswehr Wehrpflicht
حکام نے وفاقی جرمن فوج میں ایک دائیںن بازو کے شدت پسند اہلکار کو گرفتاتی کے بعد جیل بھجوا دیا تصویر: Frank Augstein/AP Photo/picture alliance

 چند تادیبی کارروائیاں

اس طرح کے بیانات سے فیزر کے منصوبوں کی مخالفت کرنے والوں کے شکوک و شبہات کو تقویت ملنے کا امکان ہے۔

سول سروس ایسوسی ایشن نے مسودہ بل کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سن 2021 میں وفاقی سطح پرسرکاری ملازمین کے خلاف 373 تادیبی اقدامات کیے گئے تھے۔ یہ تعداد تقریباً 190,000 جرمن سرکاری ملازمین میں سے 0.2 فیصد کے مساوی ہے۔ اسی مدت میں صرف 25 مقدمات انتظامی عدالت کے سامنے آئے، جو کہ 0.01 فیصد کے برابر ہے۔

بدنامی کا خطرہ؟

سول سروس ایسوسی ایشن نے فیزر پر ریاستی ملازمین میں خود  اعتمادی کم کرنے اور ان پر سے شہریوں کا اعتماد ختم کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔  ٹریڈ یونین کنفیڈریشن کو خدشہ ہے کہ اسی طرح سرکاری ملازمین کو ''بدنامی‘‘ کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

اس بل پر اب پارلیمنٹ میں بحث کی جائے گی، جہاں  فیزر کی سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ حکومتی اتحاد میں شامل گرینز پارٹی پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ وہ اس مسودہ قانون کا خیرمقدم کرے گی۔ تاہم گرینز نے اس مسودے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔

 مارسیل فرسٹیناؤ (ش ر⁄ ع آ )

یہ مضمون اصل میں جرمن زبان میں شائع ہوا تھا۔

جرمن حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے والے کون؟