جرمنی: خود کشی کرنے والے مہاجر کے ہمسایوں کے خلاف تحقیقات
23 اکتوبر 2016جرمن صوبے تھیورنگیا کے چھوٹے سے شہر شموئلن کے میئر سوَین شراڈے کے مطابق ایسی اطلاعات ہیں کہ اس واقعے کے دوران تماشائیوں کے طور پر وہاں کئی افراد دیر تک موجود رہے تھے اور ایسی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں: ’’آگے بڑھو، چھلانگ لگاؤ۔‘‘ شراڈے نے مزید کہا، ’’اس قسم کے عمل کی صرف مذمت ہی کی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی اسے فلموں میں نظر آنے والے خود کشی کے واقعات میں سے ایک سمجھ کر ایسے کسی واقعے کی حوصلہ افزائی کے لیے کسی دوسرے کو اکساتا ہے، تو یہ ایک نا قابل یقین بات ہے۔‘‘
شموئلن کے ایک مقامی اہلکار ماتھیاس برگ مان نے جرمن نشریاتی ادارے ایم ڈی آر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’اس سانحے کے دوران کچھ افراد قریب کی بالکونیوں سے بظاہر تصاویر بناتے بھی نظر آئے۔‘‘
ایم ڈی آر کے مطابق خود کشی کرنے والا صومالی مہاجر نوجوان رواں برس اپریل سے اس علاقے میں مقیم تھا۔ کہا گیا ہے کہ ڈپریشن میں مبتلا یہ سترہ سالہ مہاجر قریب ایک ہفتے تک ایک نفسیاتی علاج گاہ میں زیر علاج بھی رہا تھا۔ اپنی اس حالت کا ذکر مرنے والے نے شموئلن میں رہائش پذیر اور اپنے شناسا دیگر نوجوان تارکین وطن سے بھی کیا تھا۔
شموئلن کے مئیر شراڈے نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ’’پڑوسیوں کی جانب سے اس لڑکے کا خود کشی پر اکسایا جانا نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ ایک غیر انسانی فعل بھی ہے، اس سے قطع نظر کہ کوئی مقامی باشندہ ہے یا مہاجر۔ آخر ہم سب انسان ہیں۔‘‘
گزشتہ برس قریب آٹھ لاکھ نوے ہزار مہاجرین اور تارکینِ وطن جرمنی پہنچے تھے۔ ان لاکھوں پناہ گزینوں کی جرمنی آمد کے بعد سے ملک میں سماجی سطح پر اجانب دشمنی اور مہاجر مخالف جذبات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔