1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ترے وعدے پر جیے ہم‘

25 دسمبر 2019

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے رواں برس کے اختتام پر عوام کو ایک بار پھر سبز باغ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2020 ء پاکستان کے لیے اقتصادی استحکام اور ترقی کا سال ثابت ہو گا۔

https://p.dw.com/p/3VK53
Deutsche Welle Urdu Kishwar Mustafa
تصویر: DW/P. Henriksen

 

وزیر اعظم کے مطابق 2020ء میں ان کی حکومتی پالیسیوں کا مرکز اقتصادی نمو، روزگار کے نئے مواقع اور ملک کے غریب طبقے کو معاشی بدحالی سے نکالنے جیسے اہم معاملات ہوں گے۔

عمران خان  نے اپنے 'نئے پاکستان‘ کے وژن پر ایک بار پھر روشنی ڈالی اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد پرانی ذہنیت ترک کرنا اور میرٹ سسٹم کی سرپرستی کرنا ہے کیونکہ ان عوامل کی عدم موجودگی ہی دراصل ماضی میں تمام سرکاری محکموں کے کاموں میں رکاوٹ پیدا کرنے اور ان میں پائے جانے والے نقائص کا سبب بنتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے 'نیا پاکستان‘ کا تصور پیش کیا، تو اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ عوام کی زندگی آسان بنانے کے لیے جدید خیالات کے رجحان کو پروان چڑھایا جائے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ اگر عوامی مفادات کو ملحوظ رکھا جاتا تو ملک ترقی کرتا لیکن ماضی کی تمام حکومتوں نے کبھی عوامی ترقی کا نہیں سوچا اور اپنے اسی مائنڈ سیٹ کے ساتھ سیاست کی، جو نو آبادیاتی نظام میں بھی پایا جاتا تھا۔ ان کے بقول، ''یہ سب کچھ ملک اور قوم کے لیے نہایت بدقسمتی کی بات ہے مگر اس ذہنیت میں تبدیلی بالآخر آئے گی تاہم اس میں وقت لگے گیا۔‘‘ عمران خان کا کہنا ہے کہ مدینہ منورہ کی ریاست کے قیام کے بعد پیغمبر اسلام کو بھی لوگوں کی ذہنیت بدلنے میں وقت لگا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان اکیسویں صدی میں پاکستانی عوام کو بار بار چودہ سو سال پرانے دور کی مثالیں دیتے رہتے ہیں، ایک ایسے ملک کے عوام کو جو جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی اپنے بنیادی حقوق اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

چند تلخ حقائق پر نظر

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے اور 2025ء تک ملک میں بہت کم یا بمشکل ہی صاف پانی دستیاب ہو گا۔ علاوہ ازیں 2017 ء میں  سوئس فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ایکویٹک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے کرائی گئی ریسرچ کے نتائج سے انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان پانی کی سنگین آلودگی کے بحران کا شکار ہے اور صورتحال اب بھی اتنی ہی سنگین ہے۔ اس تحقیق میں شامل ایک محقق نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان میں تقریباﹰ 60 ملین افراد کو پینے کے پانی میں سنکھیے کی بہت زیادہ مقدار سے متاثر ہونے کا خطرہ ہے اور یہ بحران  تاریخی حد تک وسیع زہریلی آلودگی کا سبب بن سکتا ہے۔ 2019ء اب اختتام پذیر ہونے کو ہے لیکن اس وقت پاکستان میں عوام کو درپیش پانی کے سنگین بحران پر کوئی خاص بات چیت  نہیں کی جا رہی۔

مہنگائی

پانی کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کی بقا کے لیے غذا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ملک میں اس وقت مہنگائی کا جو عالم ہے، اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا 'احساس پروگرام‘ ایک اچھا اقدام ہے، معاشرے کے اس طبقے کے لیے جو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کشکول تک اٹھا لیتا ہے۔ تاہم معاشرے کے اس طبقے کی تنگ دستی کیسے دور ہو گی، جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی کوشش میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔

موسمیاتی تبدیلیاں

عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسوں میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے 200 ملین سے زائد شہری ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید ہوتے جا رہے نتائج سے بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ عوام کو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور خشک سالی کے ساتھ ساتھ ان کی  صحت، ملکی زراعت اور مجموعی معاشرتی ترقی پر اثر انداز ہونے والی فی کس آمدنی میں مسلسل کمی جیسے خطرات کا سامنا بھی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان ریاست مدینہ کے قیام کا خواب تو دیکھ اور دکھا رہے ہیں تاہم وہ مذکورہ مسائل کو کیسے نظر انداز کر رہے ہیں، جس کا تعلق اس دور کی حقیقی زندگی سے ہے۔

سیاسی اور سفارتی صورت حال

پاکستان تاریخ کے نہایت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ علاقائی سطح پر اپنی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے میں بھی اسلام آباد حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ قدامت پسند عرب بادشاہت اور قریبی حلیف سعودی عرب پر انحصار پاکستان کو کتنا مہنگا پڑ رہا ہے، یہ ہر عاقل و بالغ پاکستانی کو سوچنا چاہیے۔ لیکن اب پاکستان کا سعودی حلقہ اثر سے نکلنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ عمران خان کے عزائم اور ان کا وژن بلند اور مثبت سہی، مگر وہ اپنی مرضی سے کوآلا لمپور منعقدہ مسلم ریاستوں کی سمٹ تک میں بھی حصہ نہ لے سکے۔ اُدھر کئی حلقوں کے مطابق فسطائیت کی جانب بڑھتے ہوئے پڑوسی ملک بھارت کے امریکا پر اثر و رسوخ کا عالم یہ ہے کہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزیاں کرنے والے ممالک کی امریکی فہرست میں پاکستان کا نام تو شامل مگر بھارت کا نہیں۔ پاکستان کو گزشتہ برس پہلی مرتبہ اس بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ رواں برس بظاہر اسلام آباد حکومت اور ٹرمپ انتظامیہ کے باہمی تعلقات میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن امریکی حکام نے پاکستان کا نام اس بلیک لسٹ میں شامل رکھا۔

انسانی حقوق اور آزادی رائے

حال ہی میں لاہور میں عوامی حقوق کے لیے سرگرم ایک مشترکہ ایکشن کمیٹی (جے اے سی) کا ایک اجلاس ہوا، جس میں شرکاء نے پریس فریڈم، غیر حکومتی تنظیموں (این جی اوز) کے لیے حالات کار اور انسانی حقوق کے احترام کی صورت حال کا سختی سے نوٹس لیا۔ شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کچھ عناصر شہریوں کو ڈرانے کے لیے تشدد کا استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ 2009 ء سے ملک میں انتہا پسندی کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد کم ہو چکی ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاشرے سے انتہا پسندی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ان شرکاء نے نشاندہی کی کہ نئے طریقہ کار اور پالیسیوں کے تحت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی 21 مارچ 2013ء کو منظور کردہ قرارداد کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جس میں خاص طور پر غیر ملکی فنڈز تک رسائی کے لیے سول سوسائٹی کی تنظیم سازی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ ایک بیان میں نشاندہی کی گئی کہ 'انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی افراد کو ناانصافیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغنوں کے خلاف بولنے پر قتل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ ریاست کو قومی تعمیراتی پروگراموں میں شامل کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے‘۔

وزیر اعظم عمران خان کی نیک نیتی اور ان کے ملک و قوم کے لیے بلند عزائم شک و شبے سے بالاتر ہیں تاہم وہ بہت سے معاملات میں بے بس اور تنہا نظر آتے ہیں۔ ان کے پاس مخلص اور قابل مشیروں کا فقدان ہے۔ ان کے پاس ملک کو گُھن کی طرح کھاتے رہنے والےکرپٹ سیاستدانوں، ملکی عدلیہ کے مشکوک فیصلے کرنے والے منصفین اور طاقت کا ناجائز استعمال کرنے والے پرانے ڈھانچے سے لڑنے کی طاقت یا تو بہت کم ہے یا پھر ہے ہی نہیں۔

کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں