1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں کان کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین

ندیم گِل15 مئی 2014

ترکی میں کوئلے کی کان میں حادثے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین جاری ہے۔ مختلف شہروں میں اس حادثے پر پایا جانے والا سوگ احتجاج میں بھی تبدیل ہو گیا ہے اور مظاہرین حکومت پر لاپرواہی کا الزام دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1C0it
تصویر: Reuters

ترکی میں کوئلے کی کان کے بدترین حادثے پر قومی سوگ کا آج آخری دِن ہے۔ اسے ترکی کا بدترین صنعتی حادثہ قرار دیا جا رہا ہے۔

حادثے کے بعد سے 282 ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔ بیشتر افراد زہریلی کاربن مونوآکسائیڈ کے باعث ہلاک ہوئے ہیں۔ خیال ہے کہ ایک سو کان کن ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں جن کے زندہ بچنے کی امید کم ہوتی جا رہی ہے۔ تاہم امدادی کارکن تلاش کا کام بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ حادثہ ترکی کے علاقے سوما میں پیش آیا جو استنبول کے جنوب مغرب میں تین سو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس حادثے پر ترکی بھر میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے جہاں ایک دہائی سے وزیر اعظم رجب طیب کی قیادت میں شرح نمو تیز تر رہی ہے۔ تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترکی میں کام کی جگہوں پر حفاظتی معیار آج بھی انتہائی ناقص ہیں۔

Türkei Soma Grubenunglück Gül Besuch 15.05.2014
ترکی کے صدر عبداللہ گُل نے بھی ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کیتصویر: Reuters/President's Press Office/Mehmet Demirci

ایردوآن نے بدھ کو سوما کا دورہ کیا جہاں مشتعل افراد نے ان کے قافلے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی۔ ملک کے بڑے شہروں میں بھی احتجاج دیکھے گئے ہیں جہاں مظاہرین نے حکومت پر کان کنی کے شعبے سے وابستہ امراء سے نرمی برتنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کان کنوں کے تحفظ اور امدادی کارروائیوں کی مناسب معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے اس تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’ایسے حادثے صرف ترکی میں ہی نہیں ہوتے۔ یہ بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی پیش آتے ہیں جیسے امریکا، چین، فرانس، بھارت اور بیلجیئم میں بھی۔ مثلاﹰ میں ہلاکتوں کے اعدادوشمار بتا سکتا ہوں کہ کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے ایسے حادثات میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے۔ ہمارا ملک تو بہت اچھی پوزیشن میں ہے۔‘‘

گو کہ ایردوآن نے منگل سے اس حادثے پر تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کر رکھا ہے اور اس پر دُکھ کا اظہار بھی کیا ہے تاہم ان کی جانب سے اسے معمول کا حادثہ قرار دینے پر بھی عوام کا سخت ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر گھومتی ایک تصویر بھی ایردوآن پر تنقید کی وجہ بن رہی ہے جس میں ان کا ایک مشیر مظاہرین میں سے ایک کو ٹھڈے مار رہا ہے۔ روئٹرز کے مطابق اس تصویر پر ردِ عمل جاننے کے لے وزیر اعظم کے دفتر سے رابطہ کیا گیا لیکن فوری طور پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔