1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں ترک نژاد جرمن قانون ساز کی حراست

15 اگست 2023

ترک نژاد جرمن رکن پارلیمان گؤئکے اکبلوت کا کہنا ہے کہ انہیں سن 2019 میں سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر ’دہشت گردی کا پروپیگنڈا‘ کرنے کے الزام میں عارضی طور پر گرفتار کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/4VAG7
ترک نژاد جرمن قانون ساز گؤئکے اکبلوت
واضح رہے کہ اکبلوت ترک حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ وہ جرمنی میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی سرگرمیوں پر عائد پابندی کو ہٹانے کے لیے مہم چلاتی رہی ہیںتصویر: Jörg Carstensen/dpa/picture alliance

ترک نژاد جرمن قانون ساز گؤئکے اکبلوت کا کہنا ہے کہ انہیں ترکی کے دورے کے دوران، بظاہر دہشت گردی کا پروپیگنڈا پھیلانے کے الزام میں، گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سفارتی پاسپورٹ دکھانے کے باوجود انطالیہ کے ہوائی اڈے پر وارنٹ گرفتاری کے تحت انہیں کچھ دیر کے لیے حراست میں لیا گیا۔

جرمنی نے 'آزادی صحافت' کے تنازع پر ترک سفیر کو طلب کرلیا

گرفتاری کے بارے میں ہمیں کیا معلوم ہے

انتہائی بائیں بازو کی دی لنکے (دی لیفٹ) پارٹی سے تعلق رکھنے والی اس سیاست دان نے بتایا کہ جب وہ ہوائی اڈے پر پہنچیں تو انہیں صرف یہ پتہ چلا کہ ان کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ موجود ہے۔

ترکی میں انتخابات کے لیے جرمنی میں مقیم ڈیڑھ ملین ترکوں کے لیے پولنگ اسٹیشن کُھل گئے

واضح رہے کہ اکبلوت ترک حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ وہ جرمنی میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی سرگرمیوں پر عائد پابندی کو ہٹانے کے لیے مہم چلاتی رہی ہیں۔ یورپی یونین اور ترکی دونوں میں ہی پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاتا ہے۔

اپنے قونصل خانے کیوں بند کیے؟ یورپی سفیروں سے ترکی کی جواب طلبی

جرمن دفتر خارجہ نے بتایا کہ اسے گرفتاری کا معلوم تھا، جو تین اگست کو عمل میں آئی تھی۔ انقرہ میں جرمن سفارت خانہ اور انطالیہ میں قونصل خانہ دونوں ہی اس قانون ساز کے ساتھ قریبی رابطے میں بھی تھے۔

ترکی کی اپیل عدالت نے بھی عثمان کاوالا کی عمر قید کی سزا بر قرار رکھی

دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا، ’’ان کے لیے وفاقی حکومت نے اعلیٰ سطح پر، بھرپور طریقے سے اور مختلف چینلز کے ذریعے اس معاملے میں مداخلت کی تاکہ اکبلوت کی فوری طور پر رہائی ممکن ہو سکے۔‘‘

ترک نژاد جرمن قانون ساز گؤئکے اکبلوت
اکبلوت نے جرمن حکام کی مداخلت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی میں طاقت کا توازن نہیں پایا جاتا ہےتصویر: Bernd von Jutrczenka/dpa/picture alliance

اکبلوت نے کہا کہ ان کی گرفتاری کا تعلق سن 2019 میں سوشل میڈیا پر ان کی بعض پوسٹوں کے حوالے سے ہوئی تھی، تاہم پوچھ گچھ سے پہلے ہی اس کیس کو خارج کر دیا گیا۔

سیاستدان  کا کیا کہنا ہے؟

اکبلوت نے جرمن حکام کی مداخلت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی میں طاقت کا توازن نہیں پایا جاتا ہے۔ ترکی کے دورے کے دوران انہوں نے  اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کو مختصر کر دیا، تاہم کہا کہ وہ اس طرح کی حراست کے بعد خاموش نہیں بیٹھیں گی۔

انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) پر لکھا،’’پریشان نہ ہوں، مجھے گرفتاری کے وارنٹ سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

انہوں نے مزید لکھا،’’اکتوبر میں میں جرمن ترک پارلیمانی گروپ کے وفد کے دورے کے ایک حصے کے طور پر دوبارہ (ترکی) کا سفر کروں گی اور ہمیشہ کی طرح، اپنے الفاظ کی شدت برقرار رکھوں گی۔‘‘

40 سالہ قانون ساز سن 2017 سے ہی جرمن پارلیمان یا بنڈس ٹاگ کی رکن ہیں۔ وہ ترکی میں پیدا ہوئیں اور علوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی کرد خاتون ہیں۔ اس مکتب فکر میں بعض متضاد اسلامی روایات کی بھی پیروی کی جاتی ہے۔

جرمن صحافیوں کی یونین نے ترکی کے دوروں سے خبردار کیا

اکبلوت کی گرفتاری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جرمن فیڈریشن آف جرنلسٹس (ڈی جے وی) نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ترکی کے کسی بھی کاروباری یا تفریحی سفر سے گریز کریں۔

ڈی جے وی کے قومی چیئرمین فرانک ایوبرآل نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا کہ اگر اکبلوت کا پارلیمانی استثنیٰ ان کی حفاظت میں ناکام رہا، تو صحافیوں کے لیے خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا،’’جس کسی نے بھی، بطور صحافی، ترکی، اس کے صدر یا حکمران جماعت اے کے پی کے بارے میں اپنے مضامین اور سوشل نیٹ ورکس پر تنقیدی تبصرے کیے ہیں، اسے ترکی سے دور رہنا چاہیے۔‘‘

اکبلوت کی گرفتاری پر تنقید

ڈی جے وی کے قومی چیئرمین فرانک ایوبرآل نے ترک نژاد جرمن قانون ساز کو حراست میں لیے جانے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ یہ،’’ کیس ایک بار پھر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ایردوآن کی آمریت اپنے ناقدین کو ریاست کا عسکری دشمن سمجھتی ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے تو وہ انہیں پریشان کرنے کی کوشش کرتی ہے۔‘‘

انسانی حقوق کی تنظیمیں ترکی کو ان ممالک میں شمار کرتی ہیں، جہاں صحافیوں کو سب سے زیادہ جیلوں میں بھیجا جاتا ہے۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق ترکی میں یکم دسمبر سن 2022 سے اب تک 40 صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

ص ز/ (اے ایف پی، ڈی پی اے)

ترک تارکین وطن ایردوآن کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟