قدیم عہد میں قومیں بکھری ہوئی تھیں اور ہر قوم اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنی تہذیب کو فروغ دے رہی تھی۔ اِن بکھری ہوئی قوموں کے درمیان روابط کی ابتداء تاجروں نے کی، جو خطروں سے گزر کر ایک مُلک سے دوسرے مُلک پہنچے اور واپسی پر نئی تہذیب کو سامنے لائے۔ تاریخی معلومات اور کلچر کو وُسعت دینے میں سیاحوں کا بڑا حصّہ ہے۔ یہ جہاں بھی گئے وہاں کے کلچر کا خوب جائزہ لیا۔ بعض سیاحوں نے مقبولیت کی خاطر جھوٹی کہانیاں لِکھ کر مقبولیت حاصل کی۔ مُتواتر جنگوں نے تاریخ میں قوموں کے کردار کی وضاحت کی۔
جب وسیع سلطنت قائم ہوئی تو اِن میں مَفتوحہ قوموں کو بھی سیاست میں شامل کر لیا گیا اور اُن کا کلچر بھی سلطنت کا حصّہ بن گیا۔ جیسے رُومی سلطنت میں یونانی، فونیقی، شامی اور جرمن قبائل شامل ہو گئے تھے۔ اس لیے رُومی تہذیب اِن سب کا مجموعہ تھی۔
یہی صورتحال عرب سلطنت کی تھی جس میں ایرانی، بازنطینی، لبنانی، مصری، وسطِ ایشیا، اندلس اور شمالی افریقہ کے ممالک شامل تھے۔ سلطنت کی اس وُسعت نے تاریخ نویسی میں بے انتہا اضافہ کیا اور یہ کہنا مناسب ہے کہ مشہور مورخ تباری (d.923) (Tabari) نے پہلی یونیورسل تاریخ آرسَل والمکوک لِکھی، جس میں اُس کے عہد تک جو تاریخی معلومات تھيں، اُن کا تذکرہ کیا ہے۔ حمبلی فرقے کے پیروں کاروں نے تباری پر سخت تنقید کی اور اس کے گھر پر پتھراؤ بھی کیا۔ جب اُس کی وفات ہوئی تو اِس کے دوستوں نے خاموشی کے ساتھ اُسے دفن کر دیا۔ لیکن اُس کی یونیورسل تاریخ نے تاریخ نویسی میں انقلابی تبدیلیاں کیں۔
یورپ میں جب سترویں صدی میں روشن خیالی کی تحریک اُٹھی تو اس کے دانشوروں نے تاریخ کے مضمون کی اہمیت سمجھتے ہوئے اِس پر خاص توجہ دی۔
والٹیر نے تاریخ کے موضوع پر کئی کتابیں لکھیں۔ اسی نے سب سے پہلے فلسفہ تاریخ کی اصطلاح کو استعمال کیا۔ روشن خیالی کے دانشور ایک جانب یہ سمجھتے تھے کہ یورپ کی تاریخ ترقی یافتہ ہے جبکہ ایشیا اور افریقہ کی تاریخ پسماندہ ہے۔ لیکن Denis Diderot (d.1784) اس کا حامی نہیں تھا اور اُس کی دلیل تھی کہ مَشرقی تہذیب مغرب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔
اٹھارہویں صدی میں تاریخ نویسی میں اُس وقت انقلابی تبدیلیاں آئیں جب مورخوں نے تاریخی دستاویزات کی اہمیت کو سمجھا۔ یہ دستاویزات اب تک ریاست کی ملکیت تھیں۔ اِن دستاویزات میں مُلکوں کے درمیان ہونے والے معاہدے تھے، خط و کتابت تھی، حکمرانوں کے احکامات تھے۔ سیاسی عہدیداروں کے بارے میں ہدایات تھیں۔ روزمرّہ کی زندگی کے فیصلوں کے قوانین تھے۔ مورخوں نے اِن کو ترتیب دیتے ہوئے ادوار کے حساب سے مرتب کیا یعنی قدیم عہدے وسطیٰ اور ہم عصر زمانہ۔ پھر اِنھیں مضامین کے لحاظ سے بھی علیحدہ علیحدہ کیا گیا۔ اِن دستاویزات کو مورخوں کے لیے اُنیسویں صدی میں دستیاب کر دیا گیا۔ چنانچہ یورپی مُلکوں میں Archives کے شعبے قائم ہوئے۔ خاص طور سے جرمنی نے اس میں اہم اقدامات کئے۔
جرمن مورخ Leopold Von Ranke (d. 1886) نے اِن دستاویزات کو تاریخ نویسی کے لیے اہم قرار دیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ اشرافیہ کی ہو کر رہ گئی۔ اِس میں عام لوگوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
تاریخی دستاویزات کی اہمیت کے پیشِ نظر یورپ کے علاوہ ایشیا اور افریقہ کے مُلکوں نے بھی اس کے سینٹرز بنائے۔ ایشائی مُلکوں کا اَلمیہ یہ تھا کہ کلونیل پیریڈ میں اُن کی تاریخی دستاویزات پر یورپ کے کلونیل ممالِک نہ صرف اپنی دستاویزات لے گئے بلکہ کولونی کی دستاویزات کو بھی اپنے ہاں محفوظ کر لیا۔ کلونیل مُلکوں نے خاص طور سے اُن دستاویزات کو یا تو جلا دیا یا اپنے پاس محفوظ کر لیا۔ جن میں اُن کے ظُلم و ستم کی داسانیں تھیں۔
تاریخ نویسی میں اُس وقت مذید تبدیلی آئی جب آرکیالوجی نے قدیم تہذیبوں کو دریافت کیا۔ خاص طور سے یہ قدیم مشرقی تہذیبیں تھیں جن کے بارے میں مکمل معلومات نہیں تھیں۔
تاریخ نویسی کا ایک اہم ماخذ مخطوطات تھے۔ لیکن اِن مخطوطات میں نقل کرتے ہوئے کاتبوں نے اپنی جانب سے اضافے کر دیے تھے۔ ان غلطیوں کو پکڑنے کے لیے ضروری تھا کہ یہ دیکھا جائے کہ اگر کوئی اضافہ ہے تو اُس کی زبان کس عہد کی ہے۔ اس مقصد کے لیے لِسانیات یا فلالوجی کا علم وجود میں آیا۔ اس کے ماہرین کسی بھی دستاویز کی زبان کے بارے میں بتا دیتے تھے کہ یہ کس عہد کی ہے۔ جنانچہ لِسانیات کے ماہروں نے مخطوطات کو اضافی شدہ مواد سے پاک کر کے اور نئے سِرے سے Edit کر کے اُنہیں شائع کرایا۔ لہٰذا اب مورخین اِن مخطوطات پر اعتبار کرتے ہیں۔
یونیورسل تاریخ جس کی ابتداء طَبَری نے کی تھی۔ وہ روشن خیالی کے دور میں بھی جاری رہی۔ Leopold Ranke نے آخری عُمر میں 17 جلدوں میں یونیورسل تاریخ لِکھی۔ جدید دور میں اس کی مثال Arnold J. Toynbee (d.1975) کی "A Study of History” ہے جو 12 جلدوں میں لِکھی گئی۔ لیکن یونیورسل تاریخ کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔