بھارت میں بھوک ہڑتال ایک سیاسی ہتھیار
23 ستمبر 2012گاندھی جی کا اصل نام موہن داس کرم چند گاندھی تھا۔ ان کے پرستاروں نے انہیں مہاتما کے خطاب سے نوازا تھا، جس کا مطلب ہے ’عظیم روح‘۔ چھوٹے سے قد کا انتہائی نحیف سا یہ شخص 1948ء میں قتل ہونے تک ایک انوکھی مزاحمتی جنگ لڑتا رہا۔ گاندھی جی کی ان صلاحیتوں کو برطانوی نو آبادی حکمران بہت اچھی طرح محسوس کر چکے تھے۔ انہوں نے کہا،’ میں خود کو امن کا ایک سپاہی سمجھتا ہوں۔ مجھے تنظیم اور سچائی کی اہمیت کا اندازہ ہے‘۔
20 ستمبر 1932ء کو گاندھی جی جیل میں تھے، جب انہوں نے پہلی بار تا مرگ بھوک ہڑتال شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دراصل یہ اقدام اُس وقت کے ہندوستان پر حکمرانی کرنے والے برطانوی سامراج کے اُس اقدام پر احتجاج تھا، جس کا مقصد عام انتخابات میں رائے دہی کے حق کا تعین معاشرے میں قائم ذات پات کے نظام کے تحت کرنے سے تھا۔ گاندھی کو خطرہ تھا کہ اس برطانوی حکمت عملی سے معاشرہ مزید کمزور ہو گا اور اس کی یکجہتی کو برقرار رکھنا ممکن نہ رہے گا۔
’محفوظ ترین راستہ یہ ہے کہ جدید قانون، سچائی اور محبت کے قانون کی بالا دستی پر یقین رکھا جائے‘۔
یہ گاندھی جی کی آخری بھوک ہڑتال نہیں تھی۔ روزہ، عبادت اور سول نافرمانی، وہ ان اصولوں پر ساری زندگی قائم رہتے ہوئے ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بھارت میں بابائے قوم بھی کہا جاتا ہے۔
حال ہی میں معروف بھارتی سماجی کارکن انا ہزارے کی طرف سے ملک میں موجود بدعنوانی کے خلاف کی گئی بھوک ہڑتال اتنی زور دار ثابت ہوئی کہ پارلیمان ایک بہت ہی سخت قانون منظور کرنے پر مجبور ہو گئی۔ تاہم بھارت کے سیاسی اور سماجی امور کے ایک معروف ماہر ادتیہ نگم ہزارے اور بھوک ہڑتال کا سلسلہ شروع کرنے والے گاندھی جی میں واضح فرق دیکھتے ہیں۔
’گاندھی جی نے سیاست کے اندر محبت کی زبان متعارف کروائی۔ ان کی بھوک ہڑتال اپنے ہم وطنوں کے لیے تھی۔ اُن کی تحریک کا مقصد کہیں زیادہ وسیع تھا۔ وہ انسانیت کے لیے سوچتے اور محسوس کرتے تھے اور اسی لیے انسانوں کے ساتھ ان کا ایک علیحدہ ہی تعلق تھا۔ یہ ایک خاص طریقہ ہے، اپنی اخلاقی جرأت کے اظہار کا۔ بھوک ہڑتال کا فائدہ تب ہی ممکن ہے جب تمام انسانوں کے ساتھ جذباتی وابستگی کا احساس کیا جائے‘۔
سادھوؤں جیسی زندگی گزارنے والی ایک خاتون رادھا بھٹ کا کہنا ہے کہ گاندھی جی کی جدوجہد اپنی جگہ مکمل تھی اور تمام انسانوں کے لیے تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ گاندھی کی تعلیمات کی ضرورت اب اور بھی زیادہ دکھائی دیتی ہے۔
S.Petersmann/R.Christina/km/aa