بھارت: تپ دق کے خاتمے کی کوشش، کووڈ انیس کا پھیلاؤ بڑھتا ہوا
2021 ء میں بھارت میں قریب نصف ملین افراد کی ہلاکت کی وجہ تپ دق کا عارضہ بنا۔ ایک سال پہلے کے مقابلے میں یہ پانچ فیصد کا اضافہ تھا۔ بھارت دنیا بھر میں ٹی بی کے مرض سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق اس بیماری کی وجہ سے عالمی سطح پر ہونے والی کُل اموات کا ایک تہائی بھارت میں ہے۔ کووڈ انیس کے علاوہ ٹی بی دنیا بھر میں پائے جانے والی مہلک ترین متعدی بیماری ہے اور یہ کورونا وبا کے دور میں مزید مہلک ہو گئی ہے۔
کورونا کا مقابلہ زیادہ مشکل
بھارت میں کورونا کی وبا اور اس کے سبب ہونے والی اموات کے خلاف کیے جانے والے اب تک کے اقدامات سے یہ ظاہر ہو گیا ہے کہکوروناوائرس سے پیدا ہونے والی بیماری کووڈ انیس زیادہ خطرناک اور طاقتور بیماری ہے۔ اس متعدی بیماری نے بھارت میں ٹی بی کے عارضے پر قابو پانے کی کوششوں کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ کورونا وبا کے پھیلاؤ کی روک تھام میں بھارت نے اپنے بہت زیادہ وسائل کا استعمال کیا جس کے سبب ٹی بی میں مبتلا انسانوں کے اندر اس مرض کی تشخیص اور علاج کے کام متاثر ہوا۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایک بھارتی چائلڈ اسپیشلسٹ اور پبلک ہیلتھ کے ماہر ونادانا پرساد نے کہا،'' کورونا کی وبائی بیماری اور اس سے منسلک لاک ڈاؤن نے یقینی طور پر ٹی بی سمیت دیگر بیماریوں کے خلاف طبی انتظامیہ کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ صورتحال کو تسلیم کرنے اور اس سے نمٹنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں ہے۔‘‘
ٹی بی کا بیکٹیریا
تپ دق کا عارضہ پھیپھڑوں پر حملہ کرنے والے بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ بیماری بنیادی طور پر ہوا کے ذریعے پھیلتی ہے اور یہ بنیادی طور پر بالغوں کو متاثر کرتی ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو کم غذائیت کا شکار ہیں یا جن کی قوت مدافعت کمزور ہے۔
چالیس لاکھ ہلاکتوں کی رپورٹ، بھارت کا شدید احتجاج
تپ دق کی بیماری دو ہزار انیس میں عالمی سطح پر موت کی 13ویں بڑی وجہ قرار پائی۔ اب اس کے COVID-19 کے بعد دوسری بڑی وجہ ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
طبی ماہر پرساد نے نشاندہی کی کہ وبائی مرض کا خطرہ کم ہونے کے بعد بھی، بھارت کا صحت کا نظام ٹی بی کے امیونائزیشن سسٹم پر مکمل طور پر واپس نہیں آ پایا ہے۔
انہوں نے کہا، ''کورونا سے جنم لینے والی وبائی بیماری کے دوران صحت کی متعدد خدمات سست روی کا شکار ہو گئیں اور کوویڈ انیس کے بعد بھی وہ ابھی مکمل فعال نہیں ہو سکی ہیں۔‘‘
اس نقطہ نظر کی بازگشت پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن آف انڈیا کے بانی اور پروفیسر کے سری ناتھ ریڈی کے بیان میں سنائی دیتی ہے۔ ریڈی کے بقول ہندوستان کے صحت کے تمام تر وسائل کورونا وائرس کے پھلاؤ کی روک تھام، COVID کے مریضوں کے علاج اور بڑے پیمانے پر ویکسینیشن پروگرام پر مرکوز ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ٹی بی کے مرض کی تشخیص کی شرح میں کمی اور اس کے علاج میں رکاوٹ پیدا ہوگئی۔
پروفیسر کے سری ناتھ ریڈی نے کہا ہے کہ کووڈ انیس کے سبب صحت کے نظام کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ جلد از جلد کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔
ممبئی میں قائم ایک ہیلتھ ٹیک اسٹارٹ اپ Haystack Analytics کی ایک حالیہ رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں ٹی بی کیسز کا سب سے بڑا حصہ بھارت کی پیداوار ہے۔ اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 65 فیصد کیسز 15 تا 45 سال کی درمیانی عمر کے مریضوں میں رپورٹ ہوتے ہیں، آبادی کا یہی طبقہ ملکی معیشت اور پیداواری کے تناظر میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
بھارتی شہریوں کے لیے ویکیسن کی ایک ارب خوراکیں لیکن سوالات برقرار
(مُورالی کرشنن) ک م/ ع ت