کینیڈا نے بھارت کو بتا دیا کہ 'یہ قطعی قابل قبول نہیں ہے'
15 اکتوبر 2024بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تعلقات پیر کے روز نچلی ترین سطح پر اس وقت پہنچ گئے، جب گزشتہ برس وینکوور میں ایک کینیڈین سکھ کارکن کے قتل کے تعلق سے تنازعے نے مزید کشیدگی میں اضافہ کیا اور رد عمل کے طور پر دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے چھ سفارت کاروں کو ملک سے نکل جانے کا حکم صادر کیا۔
کینیڈا کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت سے منسلک ایجنٹ ہی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث تھے، جنہیں گزشتہ برس کینیڈا میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ ایک کینیڈین شہری تھے اور بھارتی ریاست پنجاب میں ایک علیحدہ خودمختار سکھ ریاست خالصتان کے لیے مہم چلانے والے سرکردہ رہنما تھے۔
خالصتان کے حامیوں کی امریکہ میں بھارتی قونصل خانے میں توڑ پھوڑ
پیر کے روز رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس (آر سی ایم پی) نے اس قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں کہا تھا کہ بھارتی سفیر کو بھی اس میں "شامل تفتیش کرنے کی ضرورت" ہے۔ اس کے فوری بعد کینیڈا کی وزارت خارجہ نے بھارتی سفیر اور دیگر پانچ سفارت کاروں ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ بھارت نے بھی فوری طور پر جوابی کارروائی کی اور کینیڈا کے بھی چھ سفارت کاروں کو نکل جانے کا حکم دیا۔
سکھ رہنما کا قتل: کینیڈا نے الزامات کا اعادہ کیا، امریکہ کو بھی گہری تشویش
بھارت نے بنیادی غلطیاں کی ہیں، کینیڈا
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پیر کی شام کو ایک بیان میں کہا کہ بھارت نے، "استعمال کرنے کے لیے اپنے سفارت کاروں کا انتخاب کر کے ایک بنیادی غلطی کی ہے اور اس نے کینیڈین شہریوں پر حملہ کرنے کے لیے منظم جرائم کیے ہیں۔"
سفارت کاروں کو ملک سے نکالنے کی خبروں کے بعد وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ جیسا کہ "آر سی ایم پی کے کمشنر نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ ان کے پاس ایسے واضح اور پختہ ثبوت ہیں کہ بھارتی حکومت کے ایجنٹس ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں اور جاری رکھے ہوئے ہیں، جو عوامی تحفظ کے لیے ایک اہم خطرہ ہیں۔"
خالصتان تنازع: کینیڈا نے 41 سفارت کاروں کو بھارت سے واپس بلا لیا
ٹروڈو نے مزید کہا کہ بھارتی ایجنٹس کی کارروائیوں میں، "خفیہ معلومات جمع کرنے کی تکنیک، جنوبی ایشیائی کینیڈین شہریوں کو نشانہ بنانے والا زبردستی کا برتاؤ اور قتل سمیت ایک درجن سے زیادہ دھمکی آمیز اور پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہونے جیسی سرگرمیاں شامل ہیں۔ یہ قطعی ناقابل قبول ہے۔"
بھارت نے 41 کینیڈین سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا کہہ دیا، رپورٹ
انہوں نے مزید کہا: "کینیڈا ایک ایسا ملک ہے، جس کی جڑیں قانون کی حکمرانی میں پیوست ہیں اور ہمارے شہریوں کا تحفظ سب سے اہم ہے۔ ہم کبھی بھی یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ بیرونی حکومت کینیڈا کی سرزمین پر کینیڈین شہریوں کو دھمکیاں دینے اور انہیں قتل کرنے جیسی سرگرمیوں ملوث ہو۔"
واضح رہے کہ کینیڈین پولیس نے ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں متعدد بھارتی شہریوں کے خلاف فرد جرم عائد کی ہے۔
کینیڈا کا الزام کیا ہے؟
رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس (آر سی ایم پی) نے اس قتل کے معاملے میں پیر کے روز ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ اس نے اپنی تحقیقات کے دوران چار "انتہائی سنگین مسائل" کی نشاندہی کی ہے۔
اس میں دونوں ممالک پر اثرانداز ہونے والی پرتشدد انتہا پسندی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، "حکومت ہند کے ایجنٹوں کو قتل عام اور پرتشدد کارروائیوں سے مربوط کیا گیا"، جو "کینیڈا میں جنوبی ایشیائی کمیونٹی کو نشانہ بنانے والے غیر محفوظ ماحول کا تصور" پیدا کرنے اور جمہوریت میں مداخلت" کے لیے منظم جرائم کا استعمال شامل کرتے ہیں۔
سکھ رہنما کے قتل کی سازش: بھارتی سرکاری اہلکار ملوث، امریکہ
پولیس نے بتایا کہ ان کی تحقیقات کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کے باوجود اس طرح کی "تخریب کاری جاری ہے، جو عوامی تحفظ کے لیے سنگین خطرہ ہے۔"
آر سی ایم پی نے کہا، "ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں، جہاں ہم نے محسوس کیا کہ حکومت ہند کا سامنا کرنا اور عوام کو کچھ انتہائی سنگین نتائج کے بارے میں مطلع کرنا بہت ضروری ہے جو ہماری تحقیقات کے ذریعے سامنے آئے ہیں۔"
خالصتان ٹائیگر فورس کے سربراہ کو کینیڈا میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا
بھارت نے کینیڈا کے دعووں کی تردید کی
کینیڈا کے ان الزامات کے بعد نئی دہلی اپنے رد عمل میں ان دعوؤں کو "مضحکہ خیز" قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا۔
بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے اس قتل کے سلسلے میں کئی بار کینیڈا سے مزید واضح ثبوت مانگے، تاہم اس کے بقول اوٹاوا نے فراہم نہیں کیے اور اس نے کینیڈا پر سیاسی وجوہات کی بنا پر جھوٹے الزامات لگانے کا الزام لگایا۔
لیکن دوسری جانب کینیڈا نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ اس کی تحقیقات میں تعاون کرنے سے انکار کر رہا ہے۔
سکھوں کے مظاہرے: بھارت نے کینیڈا کے سفیر کو طلب کر لیا
نئی دہلی نے کینیڈا کے قائم مقام ہائی کمشنر، ڈپٹی ہائی کمشنر اور چار دیگر سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے سے پہلے کہا، "بھارت اب یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ وہ کینیڈا کی حکومت کی جانب سے بھارتی سفارت کاروں کے خلاف الزامات کی ان تازہ ترین کوششوں کے جواب میں مزید اقدامات کرے۔" واضح رہے کہ کینیڈا کے سفارت کاروں کو ہفتہ کے آخر تک بھارت چھوڑنا ہے۔
گزشتہ اکتوبر میں بھی نئی دہلی کی طرف سے سفارتی استثنیٰ ختم کرنے کی دھمکی کے بعد درجنوں کینیڈین سفارت کاروں بھارت چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بعد کینیڈین حکومت نے اس کیس کی اپنی تحقیقات اور اس میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے شبہے کو عام کیا تھا۔
دوطرفہ تعلقات پر سخت دباؤ
بھارت اور کینیڈا کے درمیان تاریخی طور پر مشترکہ گرمجوشی کے تعلقات رہے ہیں اور دونوں ممالک تجارت اور سلامتی جیسے مسائل پر کلیدی اسٹریٹجک شراکت دار بھی رہے ہیں۔
تاہم یہ تعلقات اس وقت سے کشیدہ ہیں جب سے وزیر اعظم ٹروڈو نے بھارتی حکومت کے ایجنٹوں پر نجر کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ نجر بھارت کو ایک مطلوب شخص تھے لیکن وہ دہائیوں پہلے کینیڈا آئے اور ملک کی شہریت حاصل کر لی تھی۔
کینیڈا برصغیر سے باہر دنیا کی سب سے بڑی سکھ آبادی کا مسکن ہے، جہاں سکھ آبادی کا تقریباً دو فیصد رہتے ہیں۔ لیکن بھارت طویل عرصے سے بیرون ملک سکھ علیحدگی پسندوں کو سکیورٹی کے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔
کینیڈا کی سرحد کے جنوب میں ایک الگ مقدمے میں امریکی استغاثہ نے بھی بھارتی حکومت کے ایجنٹوں پر الزام لگایا ہے کہ بھارتی حکومت کے ایما پر وہ ایک اور خالصتان رہنما اور امریکی شہری، گرپتونت سنگھ پنون کو قتل کرنے کی سازش کر رہے تھے، تاہم وقت سے پہلے اس کا پتہ چل گیا۔
ص ز/ ج ا اے (اے ایف پی، روئٹرز)