بھارت کینیڈا تنازعہ: نئی دہلی پر امریکہ و برطانیہ کا دباؤ
18 اکتوبر 2024امریکہ اور برطانیہ نے برٹش کولمبیا میں ایک سکھ علیحدگی پسند اور کینیڈین شہری کے قتل کی تحقیقات میں کینیڈا کے ساتھ تعاون کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
کینیڈا کے حکام نے بھارتی حکومت سے منسلک ایجنٹوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کو انجام دینے میں ملوث رہے ہیں۔ نجر ایک طویل عرصے سے سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کی مہم چلا رہے تھے، جو خالصتان کے نام سے معروف ہے اور وہ بھارت کو مطلوب بھی تھے۔
بھارت کینیڈا کے الزامات کو 'سنجیدگی' سے لے، امریکہ
بدھ کے روز کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ایک پارلیمانی انکوائری میں بتایا تھا کہ وہ "بھارت کے ساتھ لڑائی کو اکسانے یا پیدا کرنے کے لیے" نہیں چاہتے، لیکن یہ واضح ہے کہ "بھارت نے کینیڈا کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ "بھارتی حکومت نے یہ سوچ کر ایک ہولناک غلطی کی کہ وہ کینیڈا کی حفاظت اور خودمختاری میں اتنی جارحانہ مداخلت کر سکتی ہے جیسا کہ اس نے کی ہے۔ ہمیں کینیڈین شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے جواب دینے کی ضرورت ہے۔"
تاہم نئی دہلی نے کینیڈا کے ان الزامات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے "مضحکہ خیز" اور "بے بنیاد" قرار دیا۔
بھارت اور کینیڈا میں شدید اختلافات، تعلقات نچلی ترین سطح پر
بھارت کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے، امریکہ
اس تنازعے کے سبب بھارت اور کینیڈا کے تعلقات اس قدر کشیدہ ہو گئے ہیں کہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے اعلیٰ سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا۔
امریکہ نے منگل کے روز کہا کہ بھارت کو کینیڈا کے الزامات کو "سنجیدگی سے" لینا چاہیے اور "اس کی تحقیقات میں کینیڈا کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔"
اس کے ایک دن بعد برطانیہ نے بھی ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ وہ "کینیڈا میں آزادانہ تحقیقات میں بیان کردہ سنگین پیش رفت کے بارے میں اپنے کینیڈین شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں ہے۔"
برطانوی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ "برطانیہ کو کینیڈا کے عدالتی نظام پر مکمل اعتماد ہے۔ خودمختاری اور قانون کی حکمرانی کا احترام ضروری ہے۔"
خالصتان: کیا بھارت نے اپنے سفارت خانوں کو خفیہ میمو بھیجا تھا؟
کیا یہ ایک عارضی مرحلہ ہے؟
بھارتی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کیس سے امریکہ یا برطانیہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔
عہدیدار نے کہا کہ "ہمارے امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مضبوط اور گہرے تعلقات ہیں اور کینیڈا کے الزامات مغربی اتحادیوں کے ساتھ ہمارے تعاون کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیں گے۔ تناؤ کم ہو جائے گا اور کوئی جغرافیائی سیاسی مضمرات نہیں ہوں گے۔"
سکھ رہنما کے قتل کی سازش: بھارتی سرکاری اہلکار ملوث، امریکہ
منترایا انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کی صدر شانتی میریٹ ڈی سوزا نے بھی ایسا ہی خیال ظاہر کیا۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن اور لندن کے ساتھ نئی دہلی کے تعلقات "کثیر جہتی" ہیں اور ایک "واقعے سے تعلقات متاثر ہونے کا امکان نہیں ہے۔"
اس کے باوجود ماہر کا کہنا ہے کہ اس تنازعے سے بھارت کی عالمی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
انہوں نے کہا، "کینیڈا کے الزامات پر بھارت کے سخت ردعمل نے نئی دہلی کے پاس صرف ایک ہی انتخاب چھوڑا ہے کہ وہ اپنی موجودہ پوزیشن کو برقرار رکھے اور اب اس میں کوئی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔"
ڈی سوزا نے کہا "بھارت کو توقع ہے کہ موجودہ مشکل مرحلہ عارضی ہے۔ اسے یقین ہے کہ اس کا مضبوط موقف اور فائیو آئیز کے ہر رکن کے ساتھ اچھے دوطرفہ تعلقات (سوائے کینیڈا کے) اس بحران کو ختم کرنے میں مدد کریں گے۔" فائیو آئیز میں انٹیلیجنس کا اشتراک کرنے والے امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ جیسے پانچ ملک شامل ہیں۔
خالصتان تنازع: کینیڈا نے 41 سفارت کاروں کو بھارت سے واپس بلا لیا
امریکہ اور برطانیہ بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کے خواہاں
امریکہ حالیہ برسوں میں بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بناتا رہا ہے اور وہ نئی دہلی کو ہند بحرالکاہل کے علاقے میں چین کے بڑھتے ہوئے سیاسی، اقتصادی اور فوجی تسلط کا مقابلہ کرنے کے طور پر دیکھتا ہے۔
اسی ہفتے امریکہ نے بھارت کو مسلح ڈرون دینے کا ایک بڑا معاہدہ کیا ہے، جو دونوں فریقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی فوجی شراکت کی علامت ہے۔
برطانیہ بھی بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کا خواہاں ہے اور آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے، جو مبینہ طور پر تکمیل کے قریب ہے اور فریقین معاہدے کو حتمی شکل دینے سے صرف ایک قدم دور ہیں۔
سنگاپور کے انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز کے وزٹنگ پروفیسر سی راجا موہن نے کہا کہ بھارت کے "فائیو آئیز کے ساتھ تعلقات اتنے اچھے کبھی نہیں رہے جتنے اب ہیں"، موجودہ لمحے کو وہ "ایک تاریخی بلند مقام" کے طور پر سراہتے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "گہرے روابط کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے بھارت کو الگ تھلگ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"
انہوں نے سکھ علیحدگی پسند تنظیموں کے حوالے سے بھارت کے خدشات سے نمٹنے کے لیے کینیڈا کے طریقہ کار پر بھی تنقید کی ہے۔
ص ز/ ج ا (مرلی کرشنن)