بھارتی گرو کا پولیس کے سامنے پیش ہونے سے انکار
گرو آسارام ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے وہ جیل جانے کے لیے تیار ہے۔ باپو کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد ہے اور جس بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں پولیس نے اسے طلب کیے ہے اس بچی کے والدین بھی گرو آسارام کے پیروکاروں میں سے ہیں۔
گرو نے اب تک پولیس میں رپورٹ نہیں کی۔ رواں ہفتے جمعرات کے روز بھارت کے شہر بھوپال میں صحافیوں سے بات چیت کرتے اس کا کہنا تھا، ’’میں جیل جانے کے لیے تیار ہوں، وہ بھی میرے لیے ایک طرح کی جنت ہے۔ مجھ پر لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں اور یہ میرے خلاف ایک سیاسی سازش ہے‘‘۔
رواں ماہ کی 15 تاریخ کو آسارام نے جودھ پور اپنے پیروکاروں کے لیے چلے کا اہتمام کیا ہوا تھا، جس میں وہ 16 سالہ بچی اور اس کے والدین بھی شامل تھے۔ پولیس کے مطابق وہاں ہی بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔
آسارام نے بچی کے والدین کو بتایا کہ بچی پر جنات کا سایہ ہے، لہذا اسے بچی سے اکیلے میں ملنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد وہ لڑکی اور اس کے والدین کو ایک جھونپڑی کی طرف لے گیا اور والدین سے جھونپڑی کے باہر منتر پڑھنے کو کہا اور لڑکی کو اندر کمرے میں لے گیا اور وہاں مبینہ طور پر لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
لڑکی نے اس بارے میں اپنے والدین کو دو روز بعد بتایا جس پر اس کے والدین نے گرو آسارام کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ گرو نے لڑکی کے والدین سے ملنے سے انکار کر دیا، جس پر والدین نے پولیس کا رخ کیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے، ’’ابتدائی تحقیقات کے بعد ہم نے آسارام کو تحقیقات کے لیے پیش ہونے کے لیے نوٹس جاری کر دیا ہے۔ اسے 30 اگست تک پیش ہونے کا وقت دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے بیرون ملک فرار ہونے سے روکنے کے لیے بھی نوٹس جاری کر دیا گیا ہے‘‘۔
آسارام اپنا خاندانی نام ’باپو‘ استمعال کرتا ہے جس کا مطلب ’باپ‘ ہے اور وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے پیروکار اسے ’ولی‘ مانتے ہیں۔