1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی وزیر تعلیم کا حکم، سائنس دان پھر مشکل میں

جاوید اختر، نئی دہلی
18 اگست 2019

سائنس میں ہندو دھرم کی بالادستی ثابت کرنے کی کوشش میں اپنے دعوؤں کے لیے اکثر تنقید کا نشانہ بننے والے بھارتی وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نشنک کے ایک حکم نے ملک کے سائنس دانوں کو ایک مرتبہ پھر مشکل میں ڈال دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3O5VI
Ramesh Pokharyal indischer Bildungsminister
تصویر: PIB

ڈاکٹر پوکھریال نے سائنس دانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ دنیا والوں کے سامنے ثابت کر دیں کہ سنسکرت سائنسی زبان ہے اور مستقبل میں اگر بولتے کمپیوٹر بنائے گئے تو سنسکرت ہی ان کے لیے سب سے مناسب زبان ہو گی۔
دہلی میں سائنس دانوں اور ماہرین تعلیم کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر تعلیم نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جیسے ملک کے اعلیٰ ترین سائنسی تعلیمی اداروں کے سربراہوں سے کہا، ”ہم سنسکرت کی صلاحیت ثابت نہیں کر پائے، اس لیے ہم پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ میں آئی آئی ٹی اور این آئی ٹی کے وائس چانسلروں سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمیں یہ ثابت کرنا چاہیے کہ سنسکرت سے زیادہ سائنسی زبان کوئی نہیں ہے۔"
ڈاکٹر پوکھریال نے گزشتہ ہفتے آئی آئی ٹی بمبئی کے کنووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ ہندوؤں کے مذہبی صحیفوں میں ہزاروں سال پہلے کشش ثقل کے بارے میں بتا دیا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”ایٹم اور مالیکیول ایک ہندو سادھو رشی چرک کی دریافت ہیں۔" تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ کل ہفتہ کے روز تقریب میں انہوں نے دعوی کیا کہ”رشی پرانو نے ایٹم اور مالیکیول کا پہلی مرتبہ پتہ لگایا تھا۔"
ڈاکٹر پوکھیریال عام طور پر ایسے متنازعہ بیانات دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے پارلیمان میں کہا تھا کہ علم نجوم کے سامنے علم فلکیات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ علم نجوم، فلکیات سے بہت آگے ہے، اس لئے دنیا بھر میں علم نجوم کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ ان کے اس بیان پر بھی پارلیمان میں ہنگامہ ہوا تھا کہ بھارت لاکھوں برس قبل ہی نیوکلیائی تجربہ کر چکا ہے۔ ان کے مطابق یہ تجربہ کناڈ نامی ایک سادھو نے کیا تھا۔

Deutschland Forscher entdecken Planetentrio
ڈاکٹر پوکھیریال نے پارلیمان میں کہا تھا کہ علم نجوم کے سامنے علم فلکیات کی کوئی حیثیت نہیں ہےتصویر: picture-alliance/dpa/NASA/C. Smith

’ڈارون کی تھیوری غلط ہے‘، بھارتی نائب وزیر تعلیم
دراصل ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ہندو دیومالائی کہانیوں کو سائنسی حقیقت ثابت کرنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے۔ ابتدا میں یہ کوشش پارٹی کے عام کارکنوں اور رہنماؤں کی طرف سے شروع ہوئی لیکن اب اس میں وزیر سے لے کر وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم تک سبھی اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت کو انٹرنیٹ سے لے کر ہوائی جہاز تک اور اسٹیم سیل ریسرچ سے لے کر نیوکلیائی تجربات تک ہزاروں برس قبل ہی علم تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ جدید طب آج جہاں ہے، بھارت ہزاروں برس پہلے وہاں پہنچ چکا تھا۔ انہوں نے اس حوالے سے پلاسٹک سرجری کی مثال دی تھی اور ہندوؤں کے بھگوان گنیش کے سر پر ہاتھی کی موجودگی کو بطور ثبوت پیش کیا تھا۔ وزیر اعظم مودی نے ماحولیاتی تبدیلی سے بھی انکار کیا تھا۔ ایک پروگرام کے دوران ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک بچے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”ہمارے بزرگ ہمیشہ شکایت کرتے ہیں کہ اس مرتبہ گزشتہ برس سے زیادہ سردی ہے۔ اصل میں ان کی بڑھتی عمر اور قوت برداشت میں کمی کی وجہ سے زیادہ سردی محسوس ہوتی ہے۔ ماحول نہیں بدلا ہے، ہم بدل گئے ہیں۔"
بی جے پی کے رہنما اور تریپورا کے وزیر اعلی بپلب دیب مہابھارت کے دور میں انٹرنیٹ کی موجودگی کا دعوی کر چکے ہیں۔ سابق وفاقی نائب وزیر تعلیم ستیہ پال سنگھ نے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو غلط بتایا تھا۔ راجستھا ن کے سابق وزیر تعلیم واسودیو دیونانی کا دعوی ہے کہ گائے وہ واحد جانور ہے، جو آکسیجن خارج کرتی ہے۔ وفاقی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن کا دعوی ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ نے ویدو ں میں درج ایک تھیوری کو آئنسٹائن کے نظریہ اضافت سے بہتر قرار دیا ہے۔ حالانکہ ماہرین اس دعوے کو یکسر بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔
ہندو دیو مالائی کہانیوں کو سائنس ثابت کرنے کی کوشش میں ہی اس سال کے اوائل میں منعقد انڈین سائنس کانگریس کا انتہائی اہم بین الاقوامی اجلاس اس وقت تناز عے کا شکار ہوگیا تھا، جب ایک بھارتی سائنس دان نے دعویٰ کیا کہ ہزاروں برس قبل بھارت میں اسٹیم سیل ریسرچ اور ٹسٹ ٹیوب تکنیک موجود تھی۔ انہوں نے مہابھارت کے دور میں گائیڈڈ میزائل کی موجودگی کا بھی دعویٰ کیا تھا۔
بھارت کی سائنس برادری اس طرح کے 'بے بنیاد اور غیر منطقی‘ دعوؤں سے سخت پریشان ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایسے دعوؤں سے بھارت میں سائنس کو تو شاید ہی مدد مل سکے البتہ اس کی ماضی کے بعض قابل فخر کارناموں پر بھی گہن لگ سکتا ہے۔ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ کے پروفیسر انکت سولے کا کہنا ہے، ”اسٹیم سیل ریسرچ، ٹیسٹ ٹیوب بے بی، گائیڈڈ میزائل اور طیارے انتہائی جدید تکنیک ہیں اور اگر کسی تہذیب نے انہیں حاصل کیا تھا تو اس سلسلے میں دیگر ثبوت بھی ملنے چاہئیں۔"سائنس دانوں کی ملک گیر تنظیم بریک تھرو سائنس سوسائٹی کے جنرل سکریٹری پروفیسر سومترو بنرجی کا کہنا ہے، ”ہمیں جھوٹے دعوؤں سے بچنا چاہیے، سائنس میں ہمیشہ نئی نئی چیزیں سامنے آتی رہتی ہیں لیکن تمام دعوؤں کے لیے شواہد کی ضرورت ہوتی ہے۔"
دریں اثناء بھارتی وزیر تعلیم ڈاکٹر پوکھریال کے دعوؤں کا سوشل میڈیا پر بھی خوب مذاق بنایا جا رہا ہے۔ ایک صارف نے ٹویٹ کیا ہے،”اس وقت حکومت میں اعلیٰ سطح پر یہ ثابت کرنے کے لیے زبردست مقابلہ آرائی ہو رہی ہے کہ سب سے زیادہ بے وقوف کون ہے؟"

China Raketenbau & -entwicklung durch LinkSpace, privates Unternehmen
ایک بھارتی سائنس دان نے مہابھارت کے دور میں گائیڈڈ میزائل کی موجودگی کا بھی دعویٰ کیا تھاتصویر: Reuters/J. Lee