1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں کے جل جانے کے خطرات عام

گودرون ہائزے/ کشور مصطفیٰ4 جنوری 2014

جرمنی میں ہر سال پندرہ سال سے کم عمر کے ایسے تیس ہزار بچوں کا علاج کیا جاتا ہے، جو کسی نہ کسی وجہ سے جل جاتے ہیں۔ والدین کے نہایت محتاط ہونے کے با وجود ایسے حادثات رونما ہو جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1AlIM
تصویر: Gabriela Ackin

کہتے ہیں کہ بُرا وقت کہہ کر نہیں آتا، نہ ہی کوئی لمحہ خطرے سے خالی ہوتا ہے۔ کم عمر بچوں کے جلنے کے حادثات پلک جھپکتے رونما ہو جاتے ہیں۔ بس وہ ایک لمحہ ہی ہوتا ہے، جس میں روا رکھی جانے والی غفلت والدین اور بچے دونوں کے لیے کبھی کبھی تمام عمر کا روگ بن جاتی ہے اور بچے کو قابل علاج مگر نہایت تکلیف دہ صورتحال سے دو چار کر دیتی ہے۔

چائے یا کافی کا ایک کھولتا ہوا کپ میز پر رکھا ہو اور والدین ایک لمحے کے لیے کسی دوسری طرف متوجہ ہوں اور بچے کے میز پوش کھینچنے پر گرم گرم چائے بچے پر آن گرے۔ اس طرح سے جلنے کے سبب جو زخم آئیں، وہ اکثر خطرناک بھی ثابت ہوتے ہیں، یا پھر بچے کے جسم کے متاثرہ حصے پر بد نما نشان چھوڑ جاتے ہیں۔

ٹوم کی دوسری سالگرہ میں ایک ماہ باقی رہ گیا تھا۔ وہ 10 نومبر 2008ء کو اپنی ماں کے ساتھ کچن کی میز پر بیٹھا اپنی نازک انگلیوں سے ڈرائنگ کر رہا تھا۔ اُس کی ماں زانڈرا اشٹرپل بتاتی ہے کہ اُس نے بوائلر میں پانی اُبالا، نہ جانے ماں کی نظر سے بچتے ہوئے کس طرح ٹوم نے بوائلر کو تار سے پکڑ کر کھینچ لیا۔ پانی کھولتا ہوا نہیں تھا تب بھی ننھے سے جسم کی جلد کو جلا دینے کے لیے کافی تھا۔ سارا گرم پانی ٹوم کے گلے، بازوؤں اور کمر تک پہنچ گیا۔ ٹوم کو پانچ روز تک ہسپتال میں مصنوعی کوما میں رکھا گیا، جس کے بعد اُسے انتہائی نگہداشت کے یونٹ منتقل کر دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اُس کی جلد کو دوسرے درجے کا نقصان پہنچا ہے، جس میں جلد پر موٹے موٹے آبلے بن جاتے ہیں، جو خود ہی پھٹتے جاتے ہیں اور یہ جلد کی دوسری تہہ کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ جلد کی اس دوسری لیئر یا تہہ کے نیچے پٹھے اور نسیں ہوتی ہیں۔

Symbolbild Verbrennungen bei Kindern
ایک تا تین سال کی عمر تک بچوں کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جانی چاہیےتصویر: Fotolia/photophonie

بچوں اور والدین کی امداد کرنے والی ایک انجمن

جل جانے والے بچوں کی طبی امداد میں سب سے پہلے ان کے زخموں کو صاف کیا جاتا ہے، اُن کے آبلوں کو پھوڑ کر ان کی مرہم پٹی کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ بچوں کو بے ہوش کر کے کیا جاتا ہے۔ اگر ڈاکٹروں کو یہ اندازہ ہو کہ زخم گہرے ہیں تو وہ جلد کا ٹرانسپلانٹ یا پیوند کاری کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ بچے کے جسم کے کسی دوسرے حصے سے جلد نکالتے ہیں، مثال کے طور پر سر یا ران سے۔ اس جلد کے ٹُکڑے سے وہ جھلسی ہوئی جلد اور زخمی حصے کو ڈھانپ دیتے ہیں۔ اس عمل جراحی میں ٹانکے لگائے جاتے ہیں، جن پر ہر روز مرہم لگایا جاتا ہے تاکہ یہ سخت نہ ہو جائیں۔ اس سارے عمل میں Paulinchen نامی جرمن انجمن والدین اور بچوں کا ہر طرح سے ساتھ دیتی ہے۔

اس انجمن کا نام کوئی فرضی نام نہیں ہے بلکہ اس کی ایک پرانی تاریخ موجود ہے۔ اس انجمن کی ایک رکن سوزانے فالک کے مطابق 1845ء میں جرمن شہر فرینکفرٹ سے تعلق رکھنے والے بچوں کے ایک ڈاکٹر ہائنرش ہوفمن نے بچوں کی کہانیوں کی ایک کتاب شائع کی تھی۔ اس تصویری تصنیف میں ہوفمن نے بچوں کی متعدد کہانیاں قلم بند کیں اور ان کہانیوں میں کسی نہ کسی ایسے غلط طرزعمل کا ذکر آتا ہے، جو بچوں کو شدید جسمانی یا روحانی نقصان پہنچانے کا سبب بنتا یا بن سکتا ہے۔ یہاں تک کہ بچوں کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ان کہانیوں میں سے ایک کا مرکزی کردار ایک چھوٹی سی بچی Paulinchen بھی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ وہ گھر پر بالکل تنہا ہوتی ہے اور ماچس کی تیلی سے کھیلنے لگتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گھر میں آگ لگ جاتی ہے اور بچی سمیت پورا گھر جل جاتا ہے۔ اسی نام سے 1993ء میں اس انجمن کی بنیاد رکھی گئی۔ اس انجمن کی ایک ہاٹ لائن ہے، جس پر جل کر زخمی ہو جانے والے بچوں کے والدین فون کر کے فوری مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ والدین کو صلاح و مشورے بھی دیے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کے آٹھ سو ممبرز ہیں۔ یہ ان کی ممبرشپ فیس اور چندوں کی مدد سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔

Fahim Dashty Afghanistan Portrait 9 11 Flash-Galerie
جلنے کے سبب آنے والے زخم اکثر بہت دیر سے ٹھیک ہوتے ہیںتصویر: privat/Dashty

شفا یابی کا طویل عمل

جل کر زخمی ہو جانے والے چھوٹے بچوں کو فوری طبی امداد جتنی بھی جلدی میسر کیوں نہ ہو، اس علاج میں کافی وقت اور دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کو لگنے والے ٹانکے اکثر دیر تک مسائل کا سبب بنے رہتے ہیں۔ بچوں کو یہ ٹانکے ایسی عمر میں لگتے ہیں، جب ان کے جسمانی اعضاء نشو و نما پا رہے ہوتے ہیں، اگر کوئی ٹانکا غلط لگ جائے تو جسمانی اعضاء غلط سمت ہی میں بڑھنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی حرکت میں ہمیشہ کے لیے نقص پیدا ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں فیزیو تھراپی یا پھر دوبارہ جراحی کار آمد ثابت ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم کے حساس حصوں جیسے کہ چہرے وغیرہ پر آنے والے ٹانکوں کو زیادہ تر بچوں کے بڑے ہونے کے بعد جراحی کے ذریعے درست کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس کے علاوہ اکثر بچوں کے اذہان پر جلنے کے بھیانک واقعات کے صدمات گہرے اور دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔

مجھے ایسا کچھ نہیں ہوگا

بچوں کی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے خطرناک عمر ایک سے تین سال کی ہوتی ہے۔ اس دوران بچے دنیا کی ہر چیز کی تسخیر کرنا چاہتے ہیں اور ان کے لیے ہر چیز نئی ہوتی ہے، اس لیے وہ بہت زیادہ متجسس ہوتے ہیں۔ اسی عمر میں جلنے کے حادثات سب سے زیادہ رونما ہوتے ہیں۔ مغربی دنیا میں یہ خوفناک واقعات سب سے زیادہ کرسمس کے موقع پر ہوتے ہیں کیونکہ اس موقع پر ہر گھر میں موم بتیوں کی سجاوٹ کا رواج عام ہے۔ اس کے علاوہ آتش بازی وغیرہ بھی اکثر بچوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں والدین کو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ بچے تو ہمیشہ یہی سمجھتے ہیں کہ ’مجھے ایسا کچھ نہیں ہو سکتا‘۔