1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہبنگلہ دیش

بنگلہ دیش میں کرفیو میں مزید نرمی

25 جولائی 2024

کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہرین کی قیادت متوقع طور پر آج جمعرات کو فیصلہ کرے گی کہ آیا احتجاج دوبارہ شروع کر دیا جائے۔ مظاہرین نے وزیر اعظم شیخ حسینہ سے طلبہ کے قتل پر قوم سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4iib9
اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش میں ہزاروں فوجی اہلکار اب بھی سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں
اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش میں ہزاروں فوجی اہلکار اب بھی سڑکوں پر گشت کر رہے ہیںتصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد پچھلے ہفتے نافذ کیے گئے ملک گیر کرفیو میں آج بروز جمعرات مزید نرمی کر دی گئی۔

اس حکومتی اقدام کے بعد لوگ صبح دس بجے اور شام پانچ بجے کے درمیان اپنے گھروں سے نکل سکیں گے۔

بنگلہ دیش میں طلبہ کی جانب سے ان مظاہروں کا آغاز گزشتہ ماہ ہوا تھا۔ اس احتجاج کے دوران پچھلے ہفتے پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں شروع ہوگئی تھیں، جن میں پولیس اہلکاروں سمیت کئی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس اور ہسپتالوں کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق پچھلے ہفتے ان مظاہروں کے دوران بہت سے پر تشدد واقعات میں کم از کم 191 افراد ہلاک ہوئے۔

اس صورت حال کے پیش نظر حکومت نے گزشتہ جمعے کے روز ملک گیر کرفیو نافذ کر دیا تھا، جو بدستور جاری ہے، تاہم اس میں نرمی کر دی گئی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش میں ہزاروں فوجی اہلکار اب بھی سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں اور ملک کے بیشتر حصوں میں انٹرنیٹ کی سروس بھی معطل ہے۔ تاہم مظاہرین کی جانب سے احتجاج کے سلسلے کے عارضی طور پر روک دیے جانے کے بعد جھڑپوں میں کمی دیکھی گئی ہے۔

آج جمعرات 15 جولائی کی صبح کرفیو میں نرمی کے بعد بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ میں حالیہ جھڑپوں کے بعد سے ویران رہنے والی سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں۔ اس کے علاوہ سرکاری دفاتر، بینک اور گارمنٹ فیکٹریاں تو کل ہی سے کھل گئے تھے۔

بنگلہ دیش میں طلبہ کے مظاہروں کا خونریز ترین دن

شیخ حسینہ سے معافی کا مطالبہ

ان مظاہروں کی قیادت کرنے والے طلبہ کی آج جمعرات کو ایک ملاقات متوقع ہے، جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا طلبہ احتجاج بحال کر دیا جانا چاہیے۔

مظاہروں کی منتظم تنظیم 'اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمینیشن‘ کا کہنا ہے کہ اسے حکومت کی جانے سے تلافی کی توقع ہے۔

اس تنظیم کے رابطہ کار آصف محمود نے اے ایف پی سے گفتگو کے دوران کہا، ''ہم وزیر اعظم شیخ حسینہ سے طلبہ کے قتل پر قوم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے بنگلہ دیشی وزیر داخلہ اور وزیر تعلیم کی بر طرفی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

آصف محمود کا اندازہ ہے کہ مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی اصل تعداد رپورٹ کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم بھی ہلاک ہونے والے افراد کی ایک فہرست مرتب کر رہی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق پچھلے ہفتے مظاہروں کے دوران تشدد کے واقعات کے بعد سے پولیس نے کم از کم 2,500 افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔

کوٹہ سسٹم سے متعلق عدالتی حکم

سن 2018 میں ایک عدالتی حکم کے تحت بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے تحت سرکاری نوکریوں کی تقسیم کو عارضی طور پر روک دیا گیا تھا، لیکن گزشتہ ماہ ایک ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کوٹہ نظام بحال کر دیا تھا، جس کے بعد طلبہ نے احتجاج کا آغاز کر دیا تھا۔

بنگلہ دیش میں 1971ء کی جنگ آزادی میں شریک افراد کے اہل خانہ کے لیے سرکاری ملازمتوں میں تیس فیصد کوٹہ مختص تھا، جب کہ طلبہ اس کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

بنگلہ دیشی طلباء کوٹہ سسٹم کے خلاف کیوں ہیں؟

اتوار کے روز ملکی سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کو بڑی حد تک محدود کر دینے کا حکم سنایا تھا۔

 کوٹہ سسٹم کے تحت اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے لیے 56 فیصد ریزرویشن تھی۔ اس میں بھی 30 فیصد 'ویٹیرنز کوٹہ‘ ایسے افراد کے لیے مختص تھا، جن کے والد یا دادا نے 1971میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا تھا۔ ملکی سپریم کورٹ نے سول سروسز کی ملازمتوں میں 93 فیصد آسامیاں میرٹ کی بنیاد پر بھرنے کا حکم دیا تھا اور 'ویٹیرنز کوٹہ‘ بھی کم کر کے صرف پانچ فیصد کر دیا تھا جب کہ دو فیصد ملازمتیں نسلی اقلیتوں اور معذور افراد کے لیے مختص کی گئی تھیں۔

احتجاج کرنے والے بنگلہ دیشی طلبہ کا تاہم مطالبہ ہے کہ اس کوٹہ نظام کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔

م ا ⁄ م م (اے ایف پی)