1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن حملہ: ايک اور تارک وطن پر شبہ، تلاش جاری

عاصم سلیم
21 دسمبر 2016

جرمن دارالحکومت برلن ميں انيس دسمبر کی رات دہشت گردی کی ايک مبينہ کارروائی کے سلسلے ميں اب حکام کو تيونس کے ايک شخص کی تلاش ہے۔

https://p.dw.com/p/2UfC2
Deutschland Berliner und Flüchtlinge singen am Breitscheidplatz We are the World
تصویر: Reuters/H. Hanschke

برلن ميں دو روز قبل ہونے والے مبينہ حملے ميں اب جرمن پوليس کو تيونس سے تعلق رکھنے والا ايک تارک وطن مطلوب ہے۔ ذرائع ابلاغ پر نشر کردہ رپورٹوں کے مطابق متعلقہ شخص کی سياسی پناہ کے حوالے سے چند دستاويزات اس ٹرک کے ايک حصے سے ملی ہيں۔ تاہم اس وقت بھی يہ واضح نہيں ہے کہ آيا اس مشتبہ شخص کا حملے سے براہ راست کوئی تعلق ہے۔ نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق مشتبہ شخص کی عمر بيس برس کے آس پاس ہے اور اسے تين مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ وہ تيونس کے جنوبی شہر تطاوين ميں پيدا ہوا تھا۔ جرمن اخبار ’زُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ‘ کے مطابق اس نے رواں برس اپريل ميں سياسی پناہ کی درخواست جمع کرائی تھی اور اسے عارضی رہائش کی اجازت مل گئی تھی۔ تاحال اس بارے ميں مزيد کوئی تفصيلات دستياب نہيں۔

Deutschland Sicherheit Weihnachtsmarkt Polizei
تصویر: picture alliance/dpa/C. Charisius

دريں اثناء منگل کے روز اس پاکستانی تارک وطن کو رہا کر ديا گيا، جسے ابتداء ميں شک کی بنياد پر گرفتار کيا گيا تھا۔ حکام نے اسے ناکافی شواہد کی بنياد پر رہا کيا۔

قبل ازيں برلن کے مرکزی علاقے میں واقع یادگاری چرچ کے قریب ایک بڑے ٹرک نے، جس پر پولینڈ کی نمبر پلیٹ تھی، کرسمس مارکیٹ میں لگائے گئے متعدد اسٹالز کو روند ڈالا تھا۔ پير انيس دسمبر کی رات پيش آنے والے اس واقعے ميں کم از کم بارہ افراد ہلاک جبکہ پچاس کے قريب زخمی ہو گئے تھے۔ اس واقعے ميں تارکين وطن کے ملوث ہونے کے شبے پر جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کی مہاجرين دوست پاليسی ايک مرتبہ پھر کڑی تنقيد کی زد ميں ہے اور داخلی و بين الاقوامی سطح پر کئی سولات اٹھائے جا رہے ہيں۔

دريں اثناء حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹیٹ نے قبول کر لی ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے ان کی اپنی نيوز ايجنسی عماق پر جاری ہونے والے ايک بیان کے مطابق حملہ کرنے والا ان کا ایک سپاہی تھا۔ تاہم اس بیان کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ عماق کے ذریعے اس سے قبل بھی داعش کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔