1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بجٹ: عوام اور خواص کے لئے مراعات کا تقابلی جائزہ

16 جون 2009

نئے مالی سال یعنی 10 / 2009 ءکے لئے 723 ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کرنے کے بعد حکومتی عہدیدار مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ موجودہ بجٹ کو ملکی سلامتی کی خراب صورتحال کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔

https://p.dw.com/p/IBvh
مختلف سبسڈیزیعنی امدادی قیمتیں ختم کر کے عملاً 179 ارب روپے کی مراعات واپس لی گئی ہیںتصویر: AP

غالباً اسی کے پیش نظر حکومت نے بجٹ میں 60ارب روپے کے ٹیکس لگانے کے علاوہ مختلف سبسڈیز یعنی امدادی قیمتیں ختم کر کے عملاً 179 ارب روپے کی مراعات واپس لی جس کا براہ راست اثر غریب اور متوسط طبقے پر پڑے گا۔ تاہم بجٹ دستاویزات کے تفصیلی مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عوام کو صورتحال کی سنگینی کے ادراک کا دعویٰ کرنے والے حکمران خود کو ان حالات سے الگ تھلگ رکھے ہوئے ہیں۔

اس کی واضح مثال صدر ، وزیراعظم اور ارکان پارلیمنٹ کی مراعات اور غیر ملکی دوروں کے لئے مختص کی جانے والی بھاری رقوم ہیں جن کے مطابق صرف وزیراعظم کے غیر ملکی دوروں کے لئے ماہانہ 10 کروڑ روپے جب کہ صدر کے لئے ماہانہ 3 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں ۔ اسی طرح342 ارکان اسمبلی کی سفری سہولیات کی غرض سے 5 کروڑ روپے ماہانہ کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ اس حوالے سے ادارہ برائے پائیدار ترقی سے منسلک پالیسی اینڈ ایڈووکیسی کے سربراہ فیصل ندیم گورچانی کا کہنا ہے کہ اگر حکمرانوں نے اصلاح احوال نہ کی تو ملکی معیشت ایک مرتبہ پھر بھاری غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دب جائے گی : ’’ایک طرح کی بدقسمتی کا پھر سے ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے آپ پہلے سے ہی اعلان کر رہے ہیں کہ آپ کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا اس صورت میں آپ اپنے غیر ترقیاتی اخراجات خاص طور پر وزراء، دیگر حکومتی افسران اور بیورو کریسی ہے اس کے اخراجات بڑھا دیں تو میرے خیال یہ عوام کے بارے میں حکومتی ایجنڈا کا عکس سامنے لاتی ہے۔“

خیال رہے کہ اس وقت بھی پاکستان کے غیر ملکی قرضے 50 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ایک قومی روزنامے میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق صرف وفاقی کابینہ میں شامل وزراء، وزراءمملکت اور مشیروں پر قومی خزانے سے یومیہ فی کس ایک لاکھ روپے خرچ کئے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف صحت ، تعلیم اور قانون ایسی اہم وزارتوں کے بجٹ کو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی قابل ذکر اضافے سے محروم رکھا گیا ہے۔ اقتصادی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اگر آمدنی اور اخراجات کا عدم توازن یونہی برقرار رہا تو موجودہ بجٹ خسارہ بھی اندازوں سے کہیں زیادہ ہوگا۔

امتیاز گل ، اسلام آباد

ادارت : عاطف بلوچ