لیتھوانیا میں پارلیمانی انتخابات، حکومتی تبدیلی کا امکان
13 اکتوبر 2024ولنیئس میں اقتدار اس وقت مرکز سے دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی ایک ایسی مخلوط حکومت کے پاس ہے، جس کی قیادت 49 سالہ قدامت پسند خاتون وزیر اعظم انگریڈا سیمونائٹ کر رہی ہیں۔
لیتھوانیا: جرمن فوجیوں کی تعیناتی کے لیے تعمیری کام شروع
انگریڈا سیمونائٹ 2020ء سے لیتھوانیا کی وزیر اعظم ہیں اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق امکان ہے کہ آج ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم ہو جائے اور اپوزیشن کے سوشل ڈیموکریٹس اور بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی دیگر چھوٹی جماعتوں پر مشتمل ایک نئی مخلوط حکومت اقتدار میں آ جائے۔
اقتصادی بہتری کے باوجود عوام قدرے ناخوش کیوں؟
بالٹک کی جمہوریہ لیتھوانیا میں ملکی معیشت میں ترقی کی رفتار خاصی تسلی بخش ہے اور کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران لگائی جانے والی سخت پابندیوں کے بعد مجموعی طور پر کافی معاشی بہتری بھی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے یہ ملک کووڈ انیس کی وبا کے اثرات سے کسی حد تک نکل بھی چکا ہے۔
دوسری طرف بالٹک کے قدرے چھوٹی آبادی والے اس ملک میں مہاجرین اور پناہ کے لیے اس ملک کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی بڑی تعداد میں آمد کے سبب وزیر اعظم سیمونائٹ کی حکومت کے لیے عوامی تائید و حمایت میں کافی کمی بھی ہوئی ہے۔
کالینن گراڈ کہاں ہے اور روس کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق سیمونائٹ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ ستائیس رکنی یورپی یونین کے رکن ملک کے طور پر لیتھوانیا میں اقتصادی شرح نمو دس فیصد سے زیادہ رہنے اور افراط زر کی شرح یورپی یونین کی اوسط سے بہت کم ہونے کے باوجود عوام حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔
عوامی عدم اطمینان کی وجوہات
ملکی دارالحکومت ولنیئس کی میکولاس رومیرس یونیورسٹی کی ماہر سیاسیات ریما اربونائٹ کے مطابق، ''لیتھوانیا میں عوامی عدم اطمینان اور رائے دہندگان میں حکومتی کارکردگی سے متعلق پائی جانے والی ناخوشی کی وجوہات بڑی متنوع ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا، ''اس عدم اطمینان کا تعلق ان متعدد بحرانوں اور عوام کو پہنچنے والے نفسیاتی دھچکوں سے ہے، جن کی ملکی معیشت میں متعدد مثبت اشاریے بھی کوئی تلافی نہیں کر سکے۔‘‘
وزیر اعظم سیمونائٹ کی حکومت پر عوامی تنقید کی بڑی وجہ ملک میں تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کی آمد سے پیدا ہونے والے بحران کو حل کرنے کے لیے کی جانے والی وہ کوششیں ہیں، جنہیں عوام ناکافی قرار دیتے ہیں۔
جرمنی، فرانس اور لیتھوانیا نے درجنوں روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا
گزشتہ چند برسوں کے دوران بیلاروس اور روس سے بڑی تعداد میں تارکین وطن لیتھوانیا پہنچے ہیں، جن کی اکثریت کا تعلق مختلف افریقی ممالک اور مشرق وسطیٰ کی بحران زدہ ریاستوں سے تھا۔
رائے عامہ کے جائزوں سے یہ اندازے بھی لگائے جا رہے ہیں کہ موجودہ پارلیمانی الیکشن میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں سےکوئی بھی 20 فیصد سے زیادہ عوامی تائید حاصل نہیں کر سکے گی اور اسی لیے آئندہ جو بھی نئی حکومت قائم ہوئی، وہ متعدد چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں پر مشتمل ایک مخلوط حکومت ہی ہو گی۔
م م / ش ر (اے پی، اے ایف پی)