دنیا کے دیگر خطوں کی طرح ایشیائی ریاستوں میں بھی جو تنازعات پائے جاتے ہیں، وہ بھی کئی ملین انسانوں کی بے وطنی کی وجہ بنے ہیں لیکن اس بے وطنیت کی جڑیں ایشیا کے نوآبادیاتی ماضی تک بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں اس وقت تقریباﹰ دو ملین انسان اپنی بھارتی شہریت تسلیم کروانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
گزشتہ ماہ اگست میں آسام کی ریاستی حکومت نے طویل بحث اور ایک بہت متنازعہ عمل کی تکمیل پر شہریوں کا وہ قومی رجسٹر یا این آر سی شائع کر دیا، جو دراصل اس ریاست کے تسلیم شدہ شہریوں کی فہرست ہے۔ آسام کی آبادی 31 ملین ہے اور اس رجسٹر میں جن لوگوں کے نام شامل نہیں ہیں، انہیں سرکاری طور پر 'غیر قانونی تارکین وطن‘ سمجھا جاتا ہے۔
اس عمل کا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا درخواست دہندہ، جو یہ ثابت نہ کر سکے کہ وہ 24 مارچ 1971ء سے پہلے بھی آسام میں رہائش پذیر تھا، اس کی ریاستی شہری کے طور پر قانونی حیثیت کو 'مشکوک‘ سمجھا جاتا ہے۔ 1971ء میں 24 مارچ وہ تاریخ تھی، جسے موجودہ بنگلہ دیش کی سابقہ مشرقی پاکستان کے طور پر اس دور کی پاکستانی ریاست سے آزادی کی جنگ کا نقطہ آغاز قرار دیا جاتا ہے۔
-
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
’ماڈل ولیج ‘کی تعمیر
وہ علاقے جہاں بحالی کا کام کیا جا رہا ہے، وہاں اب بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے کو ماڈل ولیج کی طرز پر بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس علاقے کو خالی اس لیے کروایا گیا تاکہ یہاں نئی آبادکاریاں کی جائیں۔ اس کے تحت وہاں بہتر سڑکوں اور نئے گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
-
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
نئے لوگوں کی آمد
ملک کے دیگر علاقوں سے یہاں آنے والوں رہائش کی اجازت ہے۔ تاہم یہاں آ کر بسنے والوں کی تعداد نہ صرف انتہائی کم ہے بلکہ اکثریت کا تعلق ملک کے جنوبی علاقوں سے آئے انتہائی غریب طبقے سے ہے۔
-
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
عوام میں خوف
یہاں آکر بسنے والے لوگوں نے اس علاقے سے نئی زندگی کی کئی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تاہم انہیں یہاں بحالی سے قبل رہنے والوں کی واپسی کا خوف بھی ہے۔ اب تک سات لاکھ روہنگیا ان علاقوں سے بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔
-
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
غیر مسلم علاقہ
راکھین کی تعمیر نو کے لیے ایک ضمنی کمیٹی CRR بنائی گئی ہے۔ یہ ایک پرائیویٹ پلان ہے اور اس کمیٹی کے مقامی رہنما کے مطابق اس پلان کے تحت آباد کیے جانے والے علاقوں کو صرف غیر مسلموں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
-
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
آبادکاری کے لیے فنڈنگ
راکھین کے پارلیمانی ممبر کے مطابق یہ علاقہ اب سے قبل صرف مسلمانوں کے زیر اثر تھا۔ لیکن اب ان کے جانے کے بعد یہاں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو جگہ دی جائے گی۔ یہاں نئے گھر بنانے اور لوگوں کو بسانے کے لیے راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی فنڈ جمع کر رہی ہے۔
-
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
64 خاندانوں کی آبادکاری
اب تک راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی CRR کی جانب سے 64 خاندانوں کے 250 افراد کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ جبکہ دو سو افراد نے یہاں بسنے کی خواہش ظاہر کی ہے جن کے نام ابھی ویٹنگ لسٹ میں درج ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اور انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والے ہیں۔
تب سابقہ مشرقی پاکستان میں جو جنگ ہوئی تھی، اس سے بچنے کے لیے اور پھر موجودہ پیپلز ریبپلک بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے فوری بعد اندازہﹰ تقریباﹰ 10 ملین شہری بنگلہ دیش سے نکل کر بھارت میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ ان تقریباﹰ ایک کروڑ انسانوں کی بعد کی نسلوں کے بہت سے لوگ آج بھی بھارت میں مقیم ہیں۔
بھارت اور میانمار کے مابین مماثلت
اب آسام میں اس بھارتی ریاست کے تقریباﹰ دو ملین باسیوں کو یا تو ملک بدر یا پھر حراستی مراکز میں بند کر دیے جانے کا خطرہ ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے آٹھ ستمبر کو اپنے دورہ آسام کے دوران یہ اعلان بھی کر دیا تھا، ''بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ان در اندازوں کو ایک ایک کر کے اٹھائے گی اور انہیں خلیج بنگال میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘
اس بارے میں اقوام متحدہ کی ایک سابقہ خاتون اہلکار اور بھارتی ماہر سماجیات انورادھا سین مکرجی نے کئی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے ایک مشترکہ بلاگنگ پلیٹ فارم The Conversation پر لکھا ہے، ''اس بات کا قوی امکان ہے کہ آسام میں این آر سی کی تکمیل کا عمل بے وطنی کی حالت سے جڑے ایسے انتہائی تکلیف دہ مصائب کا سبب بنے گا، جو بہت عرصے تک جاری رہیں گے۔‘‘
-
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
-
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
-
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
-
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
-
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
-
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
-
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
-
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
مصنف: اے ایف پی
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا اعلان اور انورادھا سین مکرجی کی تنبیہ اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ روہنگیا نسلی اقلیت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو سرکاری طور پر 'بنگالی‘ کہا جاتا ہے، اور یوں اس بیانیے کو تقویت دی جاتی ہے کہ یہ لاکھوں انسان وہ غیر قانونی تارکین وطن اور ان کی نئی نسلیں ہیں، جو بنگلہ دیش سے میانمار گئے تھے۔
دنیا کی سب سے زیادہ تعاقب کا شکار نسلی اقلیت
روہنگیا باشندوں کو پوری دنیا میں سب سے زیادہ تعاقب کا شکار نسلی اقلیت سمجھا جاتا ہے۔ یہ لاکھوں انسان حقیقت میں بے وطن ہیں۔ کئی بین الاقوامی ماہرین اور اقوام متحدہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان لوگوں کے مصائب میں ان کی بے وطنیت کے باعث بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ 2017ء میں میانمار کی ریاست راکھین میں ایسے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو پرتشدد انداز میں ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کا عمل اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا، جس کے بعد سے لاکھوں روہنگیا مہاجرین آج بھی ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ راکھین میں روہنگیا آبادی کی اس جبری بے دخلی کو اقوام متحدہ نے 'نسلی تطہیر‘ بھی قرار دے دیا تھا۔
بے وطنیت کی جڑیں
یورپی نوآبادیاتی حکمرانوں کی آمد سے قبل ایشیا میں کسی ایسی قومی ریاست کا تصور موجود ہی نہیں تھا، جہاں کوئی خاص اکثریت واضح طور پر تعین کردہ جغرافیائی سرحدوں کے اندر رہتی ہو۔ تب علاقائی سطح پر ترک وطن عام تھا اور مختلف بااثر بادشاہتوں اور خود مختار نوابی ریاستوں کے مابین سرحدیں ڈھیلی ڈھالی اور غیر واضح تھیں۔
-
روہنگیا مہاجرین دنیا کے کون کون سے ممالک میں ہیں
میانمار
اعداد وشمار کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش کی طرف حالیہ ہجرت سے قبل میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ تھی۔ میانمار میں انہیں غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
-
روہنگیا مہاجرین دنیا کے کون کون سے ممالک میں ہیں
بنگلہ دیش
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد روہنگیا اپنی جان بچانے کے لیے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہےکہ مہاجرین کی تعداد اور ضروریات کے تناظر میں بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھاری امداد کی ضرورت ہے۔
-
روہنگیا مہاجرین دنیا کے کون کون سے ممالک میں ہیں
پاکستان
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے انتہائی پسماندہ علاقوں اور بستیوں میں قریب تین لاکھ روہنگیا باشندے مقیم رہائش پذیر ہیں۔ یہ وہ باشندے ہیں، جن میں سے بہت سے قریب نصف صدی قبل سابق برما اور موجودہ میانمار میں ہونے والی خونریزی سے بچتے بچاتے پاکستان پہنچے تھے۔
-
روہنگیا مہاجرین دنیا کے کون کون سے ممالک میں ہیں
سعودی عرب
ساٹھ کی دہائی میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے دورِ ِ اقتدار میں ہزاروں روہنگیا مسلمان برما (جو اب میانمار ہو چکا ہے) کے مغربی صوبے اراکان سے ہجرت کر کے سعودی شہر مکہ پہنچے تھے۔ حال ہی میں ریاض حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر پندرہ ملین ڈالر کی امداد روہنگیا مسلمانوں کو دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
-
روہنگیا مہاجرین دنیا کے کون کون سے ممالک میں ہیں
ملائیشیا
ملائیشیا کی حکومت کے مطابق راکھین ریاست میں شورش کی وجہ سے ہزاروں روہنگیا افراد ہمسایہ ممالک میں فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ سے زائد اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی پہنچ چکے ہیں۔
-
روہنگیا مہاجرین دنیا کے کون کون سے ممالک میں ہیں
بھارت
میانمار کی روہنگیا اقلیت کئی برسوں سے ہجرت کر کے بھارت کا رخ کرتی رہی ہے۔ بھارت میں اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کردہ مہاجر کیمپوں میں سولہ ہزار سے زائد روہنگیا رہ رہے ہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق بھارت میں کم و بیش چالیس ہزار روہنگیا مہاجرین مقیم ہیں۔
-
روہنگیا مہاجرین دنیا کے کون کون سے ممالک میں ہیں
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی روہنگیا مسلمان اچھی خاصی تعداد میں مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔ یہ روہنگیا افراد بھی میانمار سے ہجرت کر کے تھائی لینڈ پہنچے تھے۔
مصنف: صائمہ حیدر
ایشیا میں نیشن اسٹیٹ کا تصور یورپی نوآبادیاتی حکمرانوں نے متعارف کرایا، اس دور میں جب آج کے بہت سے آزاد اور خود مختار ایشیائی ممالک ابھی یورپی نوآبادیاتی سلطنتوں کا حصہ تھے۔ ان میں سے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور میانمار (1937ء تک) برٹش انڈیا کا حصہ تھے، جو ایک برطانوی نوآبادی تھی۔
اس دور میں ترک وطن یا علاقائی نقل مکانی کو اس لیے بھی ترک وطن نہیں سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہ سب کچھ بہت وسیع و عریض برٹش انڈیا کے اندر ہی ہو رہا ہوتا تھا۔ برطانوی راج نے تو اپنے طور پر ترک وطن کی حوصلہ افزائی بھی کی تھی کیونکہ یہ اس کی 'تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کی حکمت عملی کا حصہ بھی تھا اور اس طرح بڑے بڑے نوآبادیاتی منصوبوں کے لیے سستے مزدور بھی آسانی سے دستیاب ہو جاتے تھے۔
بنگلہ دیش کا، لیکن الگ تھلگ 'روہنگیا جزیرہ‘
خلیج بنگال میں 20 برس سے بھی کم عرصہ پہلے اچانک وجود میں آنے والے ایک جزیرے کا نام بھاشن چار یا 'تیرتا ہوا جزیرہ‘ ہے، جو ملکی ساحلوں سے تقریباﹰ 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ جزیرہ ہر سال مون سون میں زیادہ تر پانی میں ڈوب جاتا ہے اور وہاں کوئی سڑکیں وغیرہ بھی نہیں ہیں۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔
مصنف: امتیاز احمد
اب لیکن ڈھاکا حکومت میانمار سے آنے والے کئی لاکھ روہنگیا مہاجرین میں سے تقریباﹰ ایک لاکھ کو بہت زیادہ آبادی والے علاقے کوکس بازار سے نکال کر اس جزیرے پر آباد کرنا چاہتی ہے۔ آج کل وہاں اس منصوبے پر عمل درآمد کی تیاریوں اور روہنگیا مہاجرین کے لیے رہائشی سہولیات کی فراہمی پر کام ہو رہا ہے۔
شہریت دیے جانے کے عمل میں مسائل
دوسری عالمی جنگ کے بعد 1947ء میں جب بھارت اور (موجودہ بنگلہ دیش سمیت) پاکستان کو آزادی ملی تو ایشیا میں ترک وطن اور نقل مکانی کا بہت بڑا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر تاریخ سنیل امرت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب سلطنتیں ٹوٹیں، اور ریاستی سرحدوں کا نئے سرے سے تعین ہوا، تو کروڑوں انسان مہاجر ہو گئے تھے۔ اس طرح نئی سرحدوں کے اندر بہت سے چھوٹی چھوٹی اقلیتیں وجود میں آ گئی تھیں۔‘‘
اس نقل مکانی کے حوالے سے کوئی مصدقہ اور تاریخی اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں لیکن عمومی اندازے یہ ہیں کہ برٹش انڈیا کی تقسیم کے وقت آزاد ممالک کے طور پر پاکستان سے بھارت اور بھارت سے پاکستان جانے والے مہاجرین کی تعداد دونوں میں سے ہر ایک واقعے میں 10 ملین سے لے کر 12 ملین تک رہی تھی۔
-
بے دخلی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار، روہنگیا کی ہجرت
ایک روایتی انداز
اتوار دس مئی کو چار کشیتوں کے ایک قافلے میں چھ سو افراد انڈونیشیا کے صوبے آچے پہنچے۔ اسی روز تقریباً ایک ہزار افراد تین مختلف کشیتوں میں شمالی ملائشیا کے سیاحتی علاقے لنگاوی کے ساحلوں پر اترے۔ ان میں کم از کم دو کشتیوں کو مقامی مچھیروں نے ڈوبنے سے بچایا، جس کے بعد کے تمام معاملات پولیس نے اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔
-
بے دخلی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار، روہنگیا کی ہجرت
بد حالی
ان میں سے کچھ کشتیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ انسانی اسمگلرز ممکنہ طور پر ان افراد کو بھوک اور پیاس کی حالت میں بے یار و مددگار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کشتیوں کا قافلہ تقریباً ایک ہفتے قبل روانہ ہوا تھا۔ ان میں سے بہت سے افراد کو فوری طبی امداد کی بھی ضرورت تھی۔
-
بے دخلی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار، روہنگیا کی ہجرت
ایک پُر خطر سفر
ہر سال انتہائی غریب بنگلہ دیشی اور بدھ مت کے پیروکاروں کے اکثریتی ملک میانمار سے ہزاروں روہنگیا مسلمان ملائشیا اور انڈونیشیا پہنچتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں پچیس ہزار کے قریب افراد انسانی اسمگلرز کی کشیتوں میں بیٹھ کر یہ سفر کر چکے ہیں۔
-
بے دخلی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار، روہنگیا کی ہجرت
بے وطن
ینگون حکومت میانمار میں آباد اندازاً آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو غیر قانونی بنگلہ دیشی قرار دیتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کے پاس کوئی شناخت نہیں ہے اور نسلی فسادات نے ان میں سے بہت سوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2012ء کے بعد سے تھائی لینڈ پہنچنے والے روہنگیا کی تعداد ڈھائی لاکھ بنتی ہے۔
-
بے دخلی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار، روہنگیا کی ہجرت
جدید اندازِ غلامی
ایک فلاحی تنظیم فورٹیفائی رائٹس کے میتیھو اسمتھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ روہنگیا ملائشیا پہنچانے کے لیے انسانی اسمگلرز کو دو سو امریکی ڈالر تک دیتے ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ سفر کے دوران انہیں کھانے پینے کا مناسب سامان مہیا نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی بیٹھنے یا لیٹنے کے لیے مناسب جگہ دستیاب ہوتی ہے۔ دوران سفر انہیں مارا پیٹا بھی جاتا ہے بعض واقعات میں تو قتل بھی کیا گیا ہے۔
-
بے دخلی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار، روہنگیا کی ہجرت
تھائی لینڈ کا خوف
بعض روہنگیا افراد کو اسمگلرز کی گاڑیوں میں تھائی لینڈ میں داخل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ اسمگلرز ان افراد کو جنگلوں میں یرغمال بنا لیتے ہیں اور تاوان ادا کرنے کے بعد انہیں آزادی نصیب ہوتی ہے۔ بنکاک حکومت کے ایک حالیہ آپریشن میں پولیس نے جنگلوں میں اجتماعی قبریں دریافت کی ہیں، جس کے بعد بہت سے اسمگلرز نے نئے طریقے اپنانے شروع کر دیے ہیں۔
-
بے دخلی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار، روہنگیا کی ہجرت
کارروائی کے نتائج
بنکاک حکومت کے آپریشن کے نتیجے میں جنوبی تھائی لینڈ کے جنگلات میں روہنگیا اور بنگلہ دیشی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ملی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آپریشن شروع ہو نے کے بعد اسمگلرز ان افراد کو چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ ملنے والے پناہ گزینوں سے تھائی حکام پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔
-
بے دخلی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار، روہنگیا کی ہجرت
مہاجرت کی لہر
جنوب مشرقی ایشیا کو تنازعات، ظلم و ستم اور غربت کی وجہ سے نقل مکانی کی لہر کا سامنا ہے۔ ابھی حال میں بتایا گیا کہ ایشیا پیسیفک ممالک کے تقریباً بارہ ملین افراد نے ہجرت کی، جو کسی بھی خطے میں سب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی ہے۔
مصنف: گابریئل ڈومنگیز / عدنان اسحاق
مجموعی طور پر اس دوران پورے ایشیا میں ثقافتی اور لسانی سطح پر آپس میں مربوط خطوں کی دھڑا دھڑا تقسیم سے بھی ایسی ریاستیں وجود میں آئیں، جو کثیرالنسلی اور کثیرالمذہبی ریاستیں تھیں۔ خاص کر 1945ء سے لے کر 1950ء تک کے عرصے میں قائم ہونے والی نئی ریاستوں کو جلد از جلد شہریت سے متعلق نئے قوانین اپنانا تھے۔ ان ممالک نے انتہائی معمولی یا کسی بھی ترمیم کے بغیر ہی زیادہ تر وہی قوانین اپنا لیے، جو پہلے سے موجود اور نوآبادیاتی طاقتوں کے بنائے ہوئے تھے۔ اس وجہ سے بھی شہریت سے متعلقہ قوانین کے باعث کئی مسائل پیدا ہو گئے تھے۔
بین الاقوامی قوانین کو تسلیم کرنے سے احتراز
جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک میں آج بھی کئی ملین انسانوں کے پاس ایسی قانونی دستاویزات موجود ہی نہیں، جن کے ذریعے وہ اپنی مقامی شہریت ثابت کر سکیں۔ وہ جنہیں بے وطن سمجھا یا قرار دیا جاتا ہے، زیادہ تر ترک وطن یا نقل مکانی کے پس منظر والے ایسے غریب انسان ہوتے ہیں، جن کی اپنی کوئی زمینیں یا دیگر املاک بھی نہیں ہوتیں۔
براعظم ایشیا میں موجودہ سیاسی ماحول بھی کئی ملین انسانوں کے بےوطن ہونے کی ایک وجہ ہے۔ مثال کے طور پر بھارت، بنگلہ دیش اور میانمار نے آج تک اقوام متحدہ کے ان تین کنوینشنوں میں سے کسی ایک پر بھی دستخط نہیں کیے، جن کا مقصد مہاجرین اور بے وطن انسانوں کو تحفط فراہم کرنا ہے۔
روڈیون ایبِگ ہاؤزن (م م / ک م)
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
طویل مسافت
میانمار میں راکھین صوبے سے ہزارہا روہنگیا مہاجرین ایک طویل مسافت طے کر کے بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو گود میں لاد کر دلدلی راستوں پر پیدل سفر آسان نہیں۔ یہ تصویر بنگلہ دیش میں ٹیکناف کے لمبر بل علاقے کی ہے۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
کیچڑ بھرا راستہ
اس تصویر میں عورتوں اور بچوں کو کیچڑ سے بھرے پیروں کے ساتھ کچے راستے پر چلتے دیکھا جا سکتا ہے۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
بیمار بھی تو اپنے ہیں
اپنا گھر چھوڑنے کی تکلیف اپنی جگہ لیکن گھر کے بزرگوں اور بیمار افراد کو چھوڑنا ممکن نہیں۔ یہ دو روہنگیا افراد اپنے گھر کی ایک معذور خاتون کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
کریک ڈاؤن کے بعد
میانمار کی فوج کے کریک ڈاؤن سے شروع ہونے والے تنازعے میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے روہنگیا افراد میں زیادہ تعداد بھی عورتوں اور بچوں ہی کی ہے۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
منظم حملے
پچیس اگست کو میانمار میں روہنگیا جنگجوؤں نے پولیس تھانوں پر منظم حملے کیے تھے، جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی شروع کر دی تھی۔ جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے مابین شروع ہونے والی ان جھڑپوں کے باعث زیادہ تر نقصان روہنگیا باشندوں کو ہی اٹھانا پڑا ہے۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
کئی سو ہلاکتیں
محتاط اندازوں کے مطابق اس تشدد کے نتیجے میں کم از کم چار سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثریت روہنگیا کی ہے۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
نف دریا
میانمار سے بنگلہ دیش کی سرحد عبور کرنے کے لیے دریا بھی پار کرنا پڑتا ہے۔ درمیان میں ’نف‘ نامی دریا پڑتا ہے، جسے کشتی کے ذریعے عبور کیا جاتا ہے۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
الزام مسترد
میانمار کی حکومت ایسے الزامات مسترد کرتی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور انہیں ہلاک یا ملک بدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
سرحدی راستے
بنگلہ دیش پہنچنے کے لیے میانمار سے روہنگیا مسلمان مختلف سرحدی راستے اپناتے ہیں۔ زیادہ تر ٹیکناف اور نیخن گھڑی کی طرف سے آتے ہیں۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
گھروں کے جلنے کا دھواں
روہنگیا کمیونٹی کے گھروں کے جلنے کا دھواں بنگلہ دیش کے ٹیکناف ریجن سے گزرنے والے دریائے نف کے اس پار سے دیکھا جا سکتا ہے۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
چھبیس سو مکانات نذر آتش
دو ستمبر کو میانمار کی حکومت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ شمال مغربی ریاست راکھین میں کئی دہائیوں کے دوران پیش آنے والے ان بدترین واقعات میں 2600 مکانات نذر آتش کیے جا چکے ہیں۔ تاہم حکومت کا الزام تھا کہ گھروں کو آگ لگانے کے ان واقعات میں روہنگیا ہی ملوث ہیں۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
جانور بھی ساتھ
بنگلہ دیش میں نقل مکانی کر کے آنے والے بعض روہنگیا افراد اپنے جانوروں کو ساتھ لانا نہیں بھولے۔ ایسی صورت میں یہ مہاجرین نف دریا کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
کوکس بازار
مہاجرین کی کچھ تعداد اب تک بنگلہ دیش کے کوکس بازار ضلع میں قائم عارضی کیمپوں میں جگہ ملنے سے محروم ہے۔ اس تصویر میں چند مہاجرین کوکس بازار کے قریب ٹیکناف ہائی وے پر کھڑے جگہ ملنے کے منتظر ہیں۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
سڑک کنارے بسیرا
جن لوگوں کو کیمپوں میں جگہ نہیں ملتی وہ سڑک کے کنارے ہی کہیں بسیرا کر لیتے ہیں۔ اس روہنگیا خاتون کو بھی چھوٹے بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے رات گزارنی پڑ رہی ہے۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
زیادہ بڑے شیلٹر
ٹیکناف کے علاقے میں بنگلہ دیشی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے زیادہ بڑے شیلٹر بنا رہی ہے تاکہ جگہ کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
دو لاکھ سے زیادہ بچے
میانمار کے روہنگیا مہاجرین میں دو لاکھ سے زیادہ بچے ہیں جو ان پناہ گزینوں کا ساٹھ فیصد ہیں۔ میانمار سے ان مہاجرین کی زیادہ تعداد جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے ضلعے کاکس بازار پہنچتی ہے، کیونکہ یہی بنگلہ دیشی ضلع جغرافیائی طور پر میانمار کی ریاست راکھین سے جڑا ہوا ہے، جہاں سے یہ اقلیتی باشندے اپنی جانیں بچا کر فرار ہو رہے ہیں۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
مہاجرین کی کہانیاں
بنگلہ دیش پہنچنے والے ہزارہا مہاجرین نے بتایا ہے کہ راکھین میں سکیورٹی دستے نہ صرف عام روہنگیا باشندوں پر حملوں اور ان کے قتل کے واقعات میں ملوث ہیں بلکہ فوجیوں نے ان کے گھر تک بھی جلا دیے تاکہ عشروں سے راکھین میں مقیم ان باشندوں کو وہاں سے مکمل طور پر نکال دیا جائے۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
اقوام متحدہ کا مطالبہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حال ہی میں میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ راکھین میں حالات کو قابو میں لانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں کئی دہائیوں سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے اور ینگون حکومت انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
بیس ہزار مہاجرین روزانہ
رواں ہفتے عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے کہا تھا کہ روزانہ کی بنیادوں پر اوسطا بیس ہزار روہنگیا بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں۔ اس ادارے نے عالمی برداری سے ان مہاجرین کو فوری مدد پہنچانے کے لیے 26.1 ملین ڈالر کی رقوم کا بندوبست کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
تین لاکھ ستر ہزار پناہ گزین
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک تین لاکھ ستر ہزار روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔ ان افراد کو بنگلہ دیشی علاقے کوکس بازار میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے۔
-
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
خوراک کی قلت
عالمی ادارہ مہاجرت کے مطابق بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ انہیں بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا بھی دستیاب نہیں اور خوراک کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
مصنف: یونس خان