1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'ایسے بھی جاتا نہیں کوئی ‘

عاصمہ کنڈی
8 ستمبر 2019

سنیچرکی شام عبدالقادرکو ان کے بیٹوں، لاتعداد دوستوں اور مداحوں نے لحد میں اتار دیا۔ ان کی ناگہانی موت کی اطلاع جسے بھی ملی وہ کچھ دیر کے لیے سکتے میں چلا گیا۔ طارق سعید اپنے دوست عبدالقادر کو اس طرح سے یاد کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3PFLn
تصویر: Getty Images/AFP

ابھی کل کی بات لگتی ہے جب فارمین کرسچئین کالج اسپورٹس ایوارڈز کی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ لے کر  ہم دودوست انفینٹری روڈ دھرم پورہ والے ان کے مشہور گھرگئے تھے۔ اس وقت کرکٹ میں عمران خان کی طرح عبدالقادرکے نام کے ڈنکے بجتے تھے اور یہ دونوں نام ایک ہی سانس میں لیے جاتے تھے۔ اس روز ان کے روبرو ہم قدرے 'نروس' تھے لیکن عبدالقادر ہماری توقع سے کہیں زیادہ ملنسار اور خوش طبع نکلے اور دعوتی چٹھی پڑھے بغیر ہی آنے کی حامی بھر لی۔ چند روز بعد جب وہ کیمپس آئے تو اس رومانوی ہیرو کی ایک جھلک دیکھنے لیے پورا ایف سی کالج سنکلئیرآڈیٹوریم میں امڈ آیا تھا۔ اپنے شایان شان استقبال پر وہ ہم سے بہت خوش ہوئے۔ یہ عبدالقادر سے میرا پہلا تعارف تھا۔ اس کے بعد وہ جب بھی ملے ایک دوست کی طرح ملے۔

اسپنر بننے کی دلچسپ کہانی 
عبدالقادرکی پیدائش تقسیم  ہند کے آٹھ سال بعد لاہور میں صوفی بزرگ میاں میرکی بستی دھرم پورہ میں ہوئی۔ ان کے والد محلہ سراں میں پیش امام تھے۔ ان کے اسپنر بننے کی کہانی بھی خاصی دلچسپ ہے۔ پہلے پہل عمران خان کی طرح عبدالقادر بھی اسپیشلسٹ بیٹسمین تھے مگر مطمئن نہ تھے۔ انہوں نے ایک بار راقم کو بتایا کہ لڑکپن میں ان کے والد انہیں دودھ لینے ایک گوالے کے پاس بھیجا کرتے تھے، جو ان کے گھر سے کچھ فاصلے پر رہتا تھا،’’راہ چلتے دودھ والا برتن ہوا میں اچھالنا میری عادت تھی۔ بے خودی میں ایک روز کلائی کے زورسے جب میں نے گڑوی کو اچھالا تو وہ دور تک گھومتی چلی گئی۔ یوں کرکٹ بال کو اسپن کرنے کا خیال پہلی بار میرے ذہن میں آیا‘‘۔

سپنوں میں بھی اسپن 
عبدالقادرسے پہلے پاکستان میں انتخاب عالم اور مشتاق محمد جیسے روایتی طرز کے لیگ اسپنر ہوتے تھے لیکن قادر کا فلسفہ 'اٹیک' تھا۔ وہ لیگ اسپن کو فاسٹ باؤلنگ کی طرح وکٹ لینے کا حربہ سمجھتے تھے جس میں ہرگیند میں بیٹسمین کے لیے ایک خطرہ ہو۔ فلیپر اور گگلی کرنے میں انہیں وہ ملکہ حاصل تھا جس کی نظیرنہیں ملتی۔ قادر ایک اوور میں چھ مختلف  انداز سے گیندیں کرنے کا ہنررکھتے تھے۔ وہ بتایا کرتے، ’’مجھے باؤلنگ میں نت نئی روائٹی پیدا کرنے کا ایسا جنون ہوا کہ کرکٹ بال کو اپنے سرہانے رکھ کر سویا کرتا اور نیند آنے تک گیند پر طرح طرح سے'گرپ' کے جتن جاری رکھتا۔‘‘

عمران نے پہچانا 
1982ء میں کپتان بننے کے بعد عمران خان نے جو دو دوررس فیصلے کیے، ان میں ایک اپنے فرسٹ کزن ماجد خان کو ٹیم سے باہر کرنا اور دوسرا عبدالقادر کو ٹیم میں واپس لانا تھا۔ عبدالقادر کا کیریئر دسمبر 1977ء میں لاہور میں شروع ہوا تھا۔ پہلے میچ میں وہ صرف ٹیل اینڈر باب ولس کی وکٹ لے سکے لیکن حیدرآباد کے اگلے ٹیسٹ میں انہوں نے 44 رنز دیکر انگلینڈ کی چھ وکٹ اڑائیں۔ البتہ بعد ازاں ان کا اعتماد مجروح ہوتا چلا گیا اوراگر عمران خان کپتان نہ بنتے تو وہ 27 سال کی عمرمیں ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیتے۔
عبدالقادرکی بہترین کارکردگی بھی عمران خان کی قیادت میں ہی سامنےآئی۔ پاکستان کا 80 کی دہائی میں کرکٹ کی سب خطرناک اور طاقتور ویسٹ انڈین ٹیم کا سینہ تان مقابلہ کرنا عبدالقادرکی باؤلنگ کی بدولت ہی ممکن ہوا۔ انگلینڈ کے خلاف وہ ہمیشہ کھلبلی مچا دیتے۔ 1982ء میں ان کا ڈرامائی رن اپ اور کلائی کے کمالات دیکھ کر مشہور انگریز کمنٹیٹر جان آرلٹ نے کہا تھا ''عبدالقادر کی سحرانگیز باولنگ نے میرے موسم گرما کا مزہ دوبالا کر دیا۔'' 
نومبر 1987ء میں عبدالقادر نے انگلینڈ کے خلاف لاہور ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 56 رنز کےعوض 9 وکٹیں لیں، جو پاکستان کا اب بھی ریکارڈ ہے۔ اس میچ میں ان کے غیض وغصب کا سامنا کرنا والے سابق انگلش کپتان گریم گوچ نے انہیں شین وارن سے بہتر اسپنر قرار دیا تھا۔ 

یادوں کا خزانہ 
عبدالقادر بتایا کرتے تھے کہ وہ کئی بار جان بوجھ کر ٹیل اینڈرز کے خلاف فلیپر کا استعمال نہیں کرتے تھے کیونکہ اس سے وکٹ کیپر مشکل میں پڑجاتا۔ سابق پاکستانی فرسٹ کلاس کرکٹر شاہد اسلم کے مطابق ''ایک بار جب عبدالقادر سکاٹ لینڈ میں پروفیشنل لیگ کھیل رہے تھے تو بیٹسمین تو بیٹسمین وکٹ کیپر بھی ان کی باؤلنگ نہ سمجھ پاتے۔ ایک میچ میں جب مخالف ٹیم آل آؤٹ ہوئی تواننگز میں بہترین اسکور بائی کا تھا۔''
امپائرزکی اکثریت کو عبدالقادرکی گگلی، ٹاپ اسپنرز اور فلیپر میں فرق روا رکھنا مشکل ہوجاتا۔ وہ کئی بار گیند کرتے ہوئے امپائر کو پیشگی مطلع کرتے کہ اگلی گیند میں فلاں ورائٹی استعمال کروں گا۔ 

دروازے کھلے رہتے 
عبدالقادر پاکستان کرکٹ میں واحد سپر اسٹارز تھے جن کے دروازے ہر وقت ہر ایک کے لیے کھلے رہتے۔ دھرم پورہ میں ان کے گھر کی دوسری منزل پر ہر شام کرکٹ کی ایک محفل سجتی۔ باہر سے آنے والوں کے علاوہ ان کے غریب محلے دار بھی باقاعدگی سے وہاں آتے۔ وہ مہمانوں کی تواضع گڑ کی چائے سے کیا کرتے تھے۔ ان کے رہنے سہنے کا انداز اس قدر عوامی تھا کہ ایک بار دھرم پورہ چھوڑ کر لاہور کے پوش ایریا ڈیفنس میں گھر بنا کر رہنے لگے مگر جلد ہی وہاں کی تنہائیوں سے بیزار ہوکر دھرم پورہ کی رونقوں میں واپس لوٹ آئے۔ 

کیفی کا نوحہ 
تین برس پہلے ہی عبدالقادر کو پی سی بی کی جانب سے پینشن ملنا شروع ہوئی تھی لیکن ان کی صحت اب بھی قابل رشک اور آنکھوں اور لہجے میں بلا کی توانائی تھی۔ وہ لاہور شہرکی زندہ دلی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ جمعہ کو جب ستمگر ستمبر کا سورج  نہرکنارے دھرم پورہ کی گنجان بستی پر ڈوب رہا تھا توعبدالقادر نےحسب معمول گھر بیٹھے اچانک کسی بات پرقہقہ لگایا، وہ زیادہ طویل نہ تھا لیکن اس کے ختم ہوتے ہی سانس اکھڑنے لگی۔ پڑوس میں ہی مطب تھا، ڈاکٹرکو فوری بلوایا گیا لیکن اس وقت تک کرکٹ نگری کا یہ جادوگر ابدی نیند سوچکا تھا۔

کیفی اعظمی نے ایسے ہی صدمے پر کہا تھا 

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
 

Asma Kundi
عاصمہ کنڈی اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی عاصمہ کنڈی نے ابلاغیات کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔