1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی جوہری تنازعے پر بات چیت شد و مد سے جاری

عاطف توقیر22 نومبر 2014

ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تہران حکومت کے متنازعہ جوہری پروگرام پر مذاکرات شدومد سے جاری ہیں۔ اس سلسلے میں کسی حتمی معاہدے کی راہ ہموار کرنے کے لیے امریکی وزیرخارجہ جان کیری ویانا میں بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DrR4
تصویر: Reuters/Heinz-Peter Bader

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک ایسے موقع پر کہ جب اس سلسلے میں کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے کے لیے طے کردہ ڈیڈلائن سر پر آ رہی ہیں، فریقین کے درمیان متعدد موضوعات پر شدید اختلافات موجود ہیں اور جان کیری کی کوشش ہے کہ کسی طرح ان اختلافات کو کم سے کم کیا جا سکے۔

جان کیری کو جمعے کے روز ویانا سے پیرس جب کہ ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف کو واپس تہران پہنچنا تھا، تاہم دونوں رہنماؤں نے ویانا میں اپنے قیام کو طوالت دے دی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے، ’کیری نے پیرس کے لیے اپنی روانگی مؤخر کر دی ہے تاکہ جواد ظریف کے ساتھ جاری مذاکرات کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘

اے ایف پی کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان جمعے کے روز دو گھنٹے تک ون ٹو ون ملاقات بھی جاری رہی۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ معلوم نہیں کہ کیری ویانا میں کتنی دیر قیام کریں گے، تاہم وہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب ہرحال میں ویانا ہی میں رکیں گے۔

Iran Atomstreit Kerry mit Zarif und Ashton 20.11.2014 Wien
اس سلسلے میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان متعدد امور پر اختلافات موجود ہیںتصویر: Reuters/L. Foeger

اس سے قبل جب جواد ظریف کے تہران واپس جانے اور وہاں اعلیٰ ایرانی قیادت سے مشاورت کرنے کی خبریں سامنے آئیں تو یہ کہا جا رہا تھا کہ غالباﹰ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جاری ان مذاکرات میں قدرے پیش رفت ہوئی ہے، تاہم ایرانی وزیرخارجہ نے جمعے کی شام اپنے بیان میں کہا کہ عالمی طاقتوں کی جانب سے ایسی کوئی پیش کش نہیں کی گئی، جسے ساتھ لے کر تہران پہنچا جا سکے۔

واضح رہے کہ ایران حکومت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک امریکا، روس، برطانیہ، فرانس اور چین پلس جرمنی ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق کسی حتمی ڈیل تک پہنچنے کے لیے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس کے اختتام پر فریقین کے درمیان ایک عبوری معاہدہ طے پایا تھا، جب کہ کسی حتمی معاہدے کے لیے 20 جولائی کی ڈیڈ لائن رکھی گئی تھی، تاہم فریقین کے درمیان متعدد امور پر شدید اختلافات کی وجہ سے اس ڈیڈ لائن میں توسیع کرنا پڑی۔

مغربی ممالک کو خدشات ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے تاہم ایرانی حکومت اپنے جوہری پروگرام کو پرامن قرار دیتی ہے۔