ایرانی جوڑوں میں محبت کا فقدان، طلاق کا رجحان
26 اگست 2014مہناز بھی ایسی ہی ایک ایرانی خاتون ہے۔ اس کے والدین نے اپنی مرضی سے اس کی شادی تو کی لیکن اس کی شادی کا نتیجہ بھی طلاق ہی کی صورت میں نکلا۔ مہناز کی شادی اکیس برس کی عمر میں ہوئی تھی اور آج کل وہ اٹھائیس برس کی ہے۔
ایک طلاق یافتہ خاتون کے طور پر وہ اپنی شادی کے بارے میں سوچتے ہوئے اداس ہو جاتی ہے۔ لیکن اسے اپنے والدین پر پھر بھی کوئی غصہ نہیں آتا، جنہوں نے اپنی خواہش کے مطابق اس کی شادی طے کی تھی۔ مہناز کا کہنا ہے کہ جب اس کی شادی ہوئی، وہ بہت نوعمر تھی اور اسے حقیقی معنوں میں علم نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔
اس ایرانی خاتون کا کہنا ہے، ’’اپنے شوہر کے خاندان سے پہلی ملاقات کے بعد میں مجھے احساس ہونے لگا تھا کہ جیسے یہ شادی کرنا غلط فیصلہ ہو گا۔ میرا اپنے خاوند کے ساتھ شروع سے ہی کوئی جذباتی رشتہ نہیں تھا۔ بعد کے عرصے میں بھی ایسا کوئی جذباتی تعلق قائم نہ ہو سکا۔‘‘
ایران میں مہناز کو ہونے والا ازدواجی تجربہ زیادہ سے زیادہ خواتین کا تجربہ بنتا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس اس ملک میں طلاق کی اوسط شرح اکیس فیصد تک پہنچ گئی جو ایک نیا ریکارڈ تھا۔ بڑے شہروں میں شادیوں کی ناکامی کی یہ شرح چھوٹے شہروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی۔
ایرانی دارالحکومت تہران میں طلاق کی اوسط شرح تینتیس فیصد بنتی ہے، یعنی ہر تین میں سے ایک شادی ناکام ہو جاتی ہے۔ تہران کے شمالی حصے میں تو، جہاں زیادہ امیر اور مغربی طرز زندگی کا حامی با اثر طبقہ رہتا ہے، شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کی شرح چالیس فیصد سے بھی زائد ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سرکاری اہلکار شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کی اس اونچی شرح کی جو وجوہات بیان کرتے ہیں، ان میں میاں بیوی کے مابین محبت کا فقدان، خاندانی مداخلت، گھریلو تشدد اور منشیات کا استعمال سب سے نمایاں ہیں۔ کئی نوجوانوں کی رائے میں اس کی بڑی وجہ وہ سخت سماجی اقدار ہیں، جن کے تحت وہ دباؤ میں رہتے ہیں اور ان سے زیادہ سے زیادہ لچک کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس بہت سے قدامت پسند خاندان طلاق کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ اس مغربی ثقافتی مداخلت کو قرار دیتے ہیں، جس نے ان کے بقول روایتی اسلامی اقدار کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایران میں نئی نسل کے باغیانہ سوچ کے حامل ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایرانی پارلیمان کی رواں سال جون میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملک میں ہائی اسکولوں کی 80 فیصد طالبات کے نہ صرف بوائے فرینڈ ہوتے ہیں بلکہ انہیں جنسی رابطوں کا تجربہ بھی ہو چکا ہوتا ہے۔
شادی کی عمر کے ایرانی نوجوانوں، خصوصاً لڑکیوں کے لیے یہ دباؤ اکثر بے چینی اور گھٹن کے احساس کی وجہ بنتا ہے کہ انہیں سماجی اقدار کی پاسداری کرنی چاہیے اور شادی اپنے والدین کی مرضی کے مطابق کرنی چاہیے۔ یہی تضاد بہت سے واقعات میں شادی کے بعد طلاق کا سبب بنتا ہے۔
فرشتے تہران کی رہنے والی ایک اٹھائیس سالہ خاتون ہے۔ اس کی ابھی شادی نہیں ہوئی لیکن اس کے دو سال سے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ تعلقات ہیں، جس کا نام امیر ہے۔ شادی کے لیے والدین کے دباؤ کے حوالے سے فرشتے کا کہنا تھا، ’’شادی کے سلسلے میں کبھی کبھی مجھے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ میں خود سے زیادہ اپنے والدین کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔‘‘
ایران میں ان دنوں ایک عام لڑکی کی شادی کے وقت اوسط عمر بائیس سال ہوتی ہے۔ فرشتے کی عمر اس اوسط عمر سے چھ سال زیادہ ہو چکی ہے۔ لیکن فرشتے کا ابھی بھی یہی کہنا ہے کہ وہ فی الحال شادی کے لیے تیار نہیں ہے۔