1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اڈولف ہٹلر کی ذاتی لائبریری

7 اگست 2008

دوسری عالمی جنگ کے بعد ہٹلر کی ذاتی لائبریری امریکی دارالحکومت واشنگٹن منتقل کر دی گئی تھی۔ کئی عشروں تک یہ لائبریری عدم توجہ کا شکار رہی ہے لیکن آج کل ماہرین اِن کتابوں کا گہری نظر سے جائزہ لے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/EsCH
ہٹلر کی ذاتی لائبریری میں شامل اُس کی خود نوشت ’’میری جدوجہد‘‘ کا جرمن ٹائیٹل۔تصویر: AP

جرمنی میں اڈولف ہٹلر کی قیادت میں برسرِ اقتدار آنے والے نازی سوشلسٹوں نے دَس مئی 1933ء کو سرِ عام کتابیں نذرِ آتِش کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اِس عمل کے دوران نازی سوشلسٹ نظریات سے مطابقت نہ رکھنے والے مواد کی حامل لاکھوں کتابیں جلا دی گئیں۔ تاہم خود ہٹلر نے باویریا میں اوبر زالس بُرگ کے مقام پر اپنے گھر میں اپنی پسند کی کتابیں جمع کر رکھی تھیں۔ بارہ سو کتابوں پر مشتمل اُن کی ذاتی لائبریری آج کل واشنگٹن میں محفوظ ہے، جہاں یہ کتابیں خصوصی اجازت نامے کے ساتھ لائبریری آف کانگریس میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

اِن میں وہ کتابیں بھی ہیں، جو تب ہٹلر کے ساتھ ہوا کرتی تھیں، جب وہ ابھی فوج میں تھا۔ اِنہی میں وہ کتابیں بھی شامل ہیں، جو برسرِ اقتدار آنے کے بعد ہٹلر کے زیرِ مطالعہ رہیں۔ اب لیکن یہ کتابیں گرد آلود ہیں، کئی ایک کا رنگ پھیکا پڑ چکا ہے، کچھ اتنی بوسیدہ ہو چکی ہیں کہ ہاتھ لگتے ہی بکھرنے لگتی ہیں۔

ہٹلر کو مطالعے کا جنون کی حد تک شوق تھا اور وہ اپنے زیرِ مطالعہ کتابوں کے صفحات پر اپنے ہاتھ سے اپنے تاثرات بھی لکھتا تھا۔ اِن کتابوں اور اِن پر درج حواشی کی مدد سے ماہرین یہ پتہ چلانا چاہتے ہیں کہ کس قسم کی ادبی تخلیقات نے ہٹلر کی شخصیت اور اُس کے نظریات کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کیا۔

Portraitbild von Adolf Hitler
اڈولف ہٹلر کی سن 1937ء میں بطور چانسلر جاری کی گئی سرکاری تصویر۔تصویر: AP

امریکی کانگریس لائبریری کے مرکزی مطالعہ ہال کے انچارج Clark Evans بتاتے ہیں:’’ہمارے پاس موجود کتابوں میں یہ بھی ہے، جو سن 1937ء میں شائع ہوئی۔ یہ برلن میں سن 1936ء میں منعقد ہونے والے اولمپک مقابلوں کی تصاویر پر مشتمل ہے، ممتاز جرمن ہدایتکارہ لینی رِیفن شٹاہل کی کتاب! دوسری بہت سی کتابوں کی طرح اِس کتاب کو بھی اڈولف ہٹلر کے نام کیا گیا ہے اور لکھا ہے:[ اپنے قائد کے لئے، شکریے اور وفاداری کے ساتھ، لینی رِیفن شٹاہل، سن 1937ء]۔‘‘

نادر کتابوں کے شعبے کے سربراہ Mark Dimunation کے مطابق امریکیوں نے اِن کتابوں کو تباہ ہونے سے بچایا ہے۔ وہ بتاتے ہیں:’’جب یہ کتابیں یہاں پہنچیں تو یہ ذخیرہ تقریباً تین ہزار کتابوں پر مشتمل تھا۔ یہ کتابیں سن 1945ء میں جرمن شہر Berchtesgaden کے قریب نمک کی ایک کان میں ڈبوں میں بند حالت میں دریافت ہوئی تھیں۔ غالباً بم حملوں سے بچانے کے لئے اِنہیں وہاں محفوظ کیا گیا تھا۔ 1946ء میں اِنہیں واشنگٹن پہنچا دیا گیا۔ یہاں اِن کی جانچ پڑتال کی گئی، نئے سرے سے ترتیب دیا گیا اور آج اِن کتابوں کی تعداد بارہ سو ہے۔ اِن میں انسائیکلوپیڈیا بھی ہیں اور فلسفیانہ تحریریں بھی، مذہب سے متعلق کتابیں بھی ہیں اور مافوق الفطرت عناصر کے بارے میں بھی۔ نسل پرستی اور سامی دشمنی سے متعلق کتابوں کے ساتھ ساتھ اِن میں ہٹلر کی اپنی کتاب ’’مائن کامپف‘‘ بھی شامل ہے۔‘‘

ممتاز مؤرخ Steven F. Sage نے اپنی ایک کتاب میں ہٹلر کی زندگی کا موازنہ Henrik Ibsen کے ڈراموں سے کیا ہے اور کمال کی مماثلتیں دریافت کی ہیں۔ تاہم واشنگٹن میں ہٹلر کی کتابوں کا ذخیرہ نامکمل ہے کیونکہ اِس میں اِبسن کی تخلیقات شامل نہیں ہیں۔ ایسے میں یہ ذخیرہء کتب ہٹلر کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ تاہم چند ایک کتابوں پر ہٹلر نے اپنے ہاتھ سے اپنے تاثرات لکھے ہیں اور اِسی باعث یہ کتابیں دلچسپ ہیں۔

Steven F. Sage Autor des Buches Ibsen and Hitler the Playwright the Plagiarist and the Plot for the Third Reich
امریکی مؤرخ Steven F. Sage، جنہوں نے ہٹلر اور اِبسن کے درمیان مماثلتوں پر کتاب تحریر کی۔تصویر: DW / Christina Bergmann

مؤرخ Sage بتاتے ہیں:’’Paul de Lagarde کی کتاب ’’جرمن تحریریں‘‘ بہت اہم ہے، جس میں دے لاگارد نے یہودیوں کو بیکٹیریا سے تشبیہ دی ہے۔ چند ایک پیراگرافس کو ہٹلر نے نیلی پنسل سے انڈر لائن کیا ہے۔ دیگر ذرائع سے ہم جانتے ہیں کہ یہ تشبیہات ہٹلر کے لئے بہت اہم تھیں۔‘‘

کچھ دیگر کتابوں میں بھی ہٹلر کے حواشی زیادہ تر سوالیہ نشانات یا علاماتِ ندائیہ (!) یا پھر پیراگرافس کو انڈر لائن کرنے تک ہی محدود ہیں۔ ویسے اب تک یہ بات بھی سو فیصدی ثابت نہیں ہے کہ آیا یہ حواشی درحقیقت ہٹلر ہی کے قلم سے نکلے ہیں۔ مؤرخ Timothy Ryback کو یقین ہے کہ تقریباً بیس تا چالیس کتابیں ایسی ہیں، جن کے ہٹلر کے ساتھ تعلق کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے۔ Ryback نے اِن کتابوں کا مطالعہ بھی کیا ہے اور مختلف متعلقہ افراد کے انٹرویوز بھی کئے ہیں۔

Ryback بتاتے ہیں:’’ہٹلر کو مطالعے کا جنون تھا۔ کتابیں ہمیشہ اُس کے ساتھ رہا کرتی تھیں۔ وہ بلا تکان پڑھا کرتا تھا۔ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس کچھ ایسی کتابیں ہیں، جنہوں نے ہٹلر کی شخصیت اور اُس کے نظریات کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کیا۔‘‘

Ryback نے اپنی تحقیق کے نتائج پر ایک کتاب بھی ’’ہٹلر کی ذاتی لائبریری - کتابیں، جنہوں نے اُس کی شخصیت تشکیل دی‘‘ کے عنوان سے تحریر کی ہے۔ یہ کتاب اکتوبر میں شائع ہو رہی ہے۔ Ryback کے مطابق اکثر صورتوں میں ہمیں معلوم ہے کہ ہٹلر نے کن حالات میں کس مخصوص کتاب کا مطالعہ کیا۔ مثلاً Max Osborn کی کتاب ’’برلن‘‘ دارالحکومت کی تعمیرات کی ایک گائیڈ ہے۔ اِس میں ہٹلر نے اپنا نام لکھا ہے اور ساتھ 22 نومبر سن 1915ء کی تاریخ اور مقام Fournes درج کیا ہے۔ اُس دَور میں ہٹلر شمالی فرانس میں لڑائی میں شریک تھا۔ یہ کتاب اب اتنی بوسیدہ ہو چکی ہے کہ ہاتھ لگتے ہی پارہ پارہ ہونے لگتی ہے۔

Ryback بتاتے ہیں:’’جب اِس کتاب کو کھولیں تو صفحات پر دھبوں کے نشانات ملیں گے۔ اِس میں فریڈرک دا گریٹ سے متعلق باب پر موم کے قطرے گرے ہوئے ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے، جو 26 سال کی عمر میں بطور فوجی ہٹلر کے ساتھ محاذ پر تھی اور مرتے دَم تک بھی اُس کے ساتھ رہی۔‘‘