آسٹریلیا: ملازمین کو اب 'ایکسٹرا شفٹ نہ کرنے کا حق' حاصل
26 اگست 2024پیر کو نافذ ہونے والے نئے قانون کا مطلب ہے کہ زیادہ تر معاملات میں ملازمین کو کام کے اوقات سے باہر اپنے آجرین کے ای میلز کو پڑھنے یا جواب دینے سے انکار کرنے پر سزا نہیں دی جا سکتی۔
اس قانون کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون کارکنوں کو ان کی ذاتی زندگیوں پر مسلسل حملے کے خلاف کھڑے ہونے کا اعتماد فراہم کرتا ہے، جو ای میلز، ٹیکسٹس اور کالز کے وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ کووڈ انیس کی وبا کے بعد سے جو ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے اس نے گھر اور کام کے درمیان تقسیم کو ختم کر دیا ہے۔
تھائی لینڈ کی نئی ویزا پالیسی: سیاحوں کو کام کرنے کی اجازت
قطر میں تارکین وطن کے لیے کم از کم اجرت کا نیا قانون نافذ
اس قانون کے نفاذ کے ساتھ آسٹریلیا تقریباﹰ دو درجن ملکوں میں شامل ہوگیا جہاں یہ قانون نافذ ہے۔ ان میں سے بیشتر ممالک یورپی اور لاطینی امریکی ہیں۔
یہ قانون ملازمین کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کام کے أوقات کے باہر آجروں کی طرف سے ان سے رابطہ کرنے کی کوششوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں، جب تک کہ یہ انکار "غیر معقول" نہ قرار پائے۔
وزیراعظم انتھونی البانی نے قومی نشریاتی ادارے اے بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، "ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ جس طرح لوگوں کو 24 گھنٹے تنخواہ نہیں ملتی، اسی طرح انہیں دن میں 24 گھنٹے کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ واضح طور پر یہ ایک ذہنی صحت کا مسئلہ ہے، اس کے ساتھ ہی لوگ اپنے کام سے رابطہ منقطع کریں اور اپنے خاندان اور ان کی زندگی سے جڑیں۔"
آسٹریلوی کونسل آف ٹریڈ یونینز کے صدر مشیل او نیل نے کہا کہ "آج کام کرنے والے لوگوں کے لیے ایک تاریخی دن ہے۔ آسٹریلوی یونینوں نے کام کے بعد آرام کرنے کا حق دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔"
کام اور زندگی میں بہتر توازن
مزدور یونینوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے کارکنوں کو کام اور زندگی کے بہتر توازن کا حق ملے گا۔ آسٹریلیائی انسٹی ٹیوٹ کے پچھلے سال کیے گئے ایک سروے کے مطابق، آسٹریلیائیوں نے پچھلے سال اوسطاً 281 گھنٹے بلا معاوضہ اوور ٹائم کام کیا۔
پیرس: اعلیٰ عہدوں پر زیادہ خواتین ملازمین رکھنے پر جرمانہ
تاہم، اعلیٰ صنعتی ادارے آسٹریلین انڈسٹری گروپ نے سرد ردعمل ظاہر کیا۔ اس نے ایک بیان میں کہا ، "کم از کم ، آجر اور ملازمین اب اس بارے میں غیر یقینی ہوں گے کہ آیا ایکسٹرا شفٹ کی پیش کش کے لئے ملازمین کو کام کے أوقات سے باہر کال کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔"
یہ قانون اس سال فروری میں نافذ کیا گیا تھا، اور اب تک درمیانے اور بڑے سائز کی کمپنیوں پرنافذ العمل ہے۔ اگست 2025 سے 15 سے کم ملازمین والی فرموں کا بھی اس قانون کے دائرے میں لایا جائے گا۔
آسٹریلیا کے ملازمین کے امور کے ریگولیٹر، فیئر ورک نے کہا کہ کارکنوں کو ایک ٹربیونل کی طرف سے حکم دیا جا سکتا ہے کہ وہ اوقات کار کے باہر ای میلز وغیرہ کے غیر معقول انکار سے اجتناب کریں، اور اسی طرح آجروں سے کہا جائے گا کہ وہ فارغ وقت کے دوران اپنے کارکنوں سے غیر معقول طور پر جواب طلب کرنا بند کریں۔
قوانین کیا ہیں؟
فیئر ورک اومبڈسمین انا بوتھ نے کہا کہ "غیر معقول" کے طور پر جو چیز طے کی جائے گی وہ "حالات پر منحصر ہو گی۔" انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو قانون کے بارے میں "عام فہم انداز" اختیار کرنا چاہیے۔
اگر کوئی تنازعہ پیدا ہوتا ہے، تو فریقین کو حل تلاش کرنے کی ترغیب دی جائے گی۔ اگر یہ ناکام ہو جاتا ہے تو فیئر ورک کمیشن(ایف ڈبلیو سی) مداخلت کرے گا۔
آسٹریلیائی انڈسٹری گروپ نے کہا کہ ایف ڈبلیو سی یا تو کمپنی کو ملازمین سے رابطہ بند کرنے کا حکم دے سکتا ہے یا اسے تادیبی کارروائی کرنے سے روک سکتا ہے۔
اگر ایف ڈبلیو سی کو ملازم کے رابطے سے انکار کرنے کی وجہ غیر معقول معلوم ہوتی ہے، تو وہ انہیں وضاحت کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
ایف ڈبلیو سی ملازم پر انیس ہزار آسٹریلوی ڈالر اور کمپنی پر چورانوے ہزار ڈالر تک جرمانہ عائد کرسکتی ہے۔
آسٹریلیا اس طرح کے قوانین منظور کرنے والا پہلا ملک نہیں ہے۔ تقریباً ایک درجن یورپی اور لاطینی امریکی ممالک میں بھی ایسے ہی ضابطے ہیں۔ فرانس پہلا ملک تھا جس نے 2017 میں ایسے قوانین متعارف کرائے اور بعد میں جرمنی نے بھی اس کی پیروی کی۔
یونیورسٹی آف سڈنی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کرس رائٹ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس حق کا ملازمین پر مثبت اثر پڑا ہے۔
رائٹ نے کہا کہ ملازمین "دستیابی کے مسائل" سے دوچار ہیں کیونکہ اسمارٹ فونز اور دیگر آلات کی وجہ سے وہ مسلسل قابل رسائی بنے رہتے ہیں۔
ج ا ⁄ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)