آئینی ترامیم کی جنگ، اگلے مرحلے کی تیاری؟
20 ستمبر 2024تجزیہ کاروں کے مطابق اسٹیبلیشمنٹ اور اس کی حمایت یافتہ حکومت نے مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے اپنا پورا زور لگا دیا تھا لیکن اس کے باوجود مولانا فضل الرحمان کی طرف سے حمایت نہ ملنے پر انہیں شدید شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اور یہ کہ اس ناکامی کے باوجود بظاہر اب اس لڑائی کے اگلے مرحلے کی تیاری جاری ہے۔
پاکستان کے ایک سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی کے مطابق، ''اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آئینی ترامیم کا معاملہ ختم ہو گیا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے کیونکہ اب نہیں تو پھر مزید چند دن بعد یہ فیصلے ہو کر رہیں گے۔ یہ معاملہ 'ڈمپ‘ نہیں ہوا صرف موخر ہوا ہے۔‘‘
پاکستان میں کئی مبصرین کا خیال ہے کہ عدلیہ کا کنٹرول فوج کی حمایت یافتہ حکومت کو درپیش کسی بھی چیلنج کو دور کرنے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔ بظاہر جو ترامیم تجویز کی گئی ہیں ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان سے عدلیہ مکمل طور پر ایگزیکٹو کے ماتحت ہو جائے گی۔
مبصرین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ موجودہ حکومت کو پارلیمان میں تین چوتھائی ارکان کی حمایت ملے تاکہ وہاں اپنی مرضی کی ترامیم کرانے کی راہ ہموار ہو سکے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے نے حکمران اتحاد کی آئینی ترامیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت ختم کر دی تھی۔
مخصوص نشستوں کے لیے اسپیکر کا الیکشن کمیشن کو خط
ایک نئی سیاسی پیش رفت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نام ایک خط لکھ کر کہا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں اس لیے ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ کے تحت خصوصی نشستیں دے دی جائیں۔ ان کے بقول انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم کیے بغیر مخصوص نشستیں ( پی ٹی آئی کو) کیسے دی جا سکتی ہیں۔ اس تازہ صورتحال میں اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوتا اور پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں ملتیں تو پھر ان آئینی ترامیم کے لیے حکومت کو مولانا فضل الرحمان کی حمایت کے حصول کی محتاجی نہیں رہے گی۔
وکلاء کا احتجاجی سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان
دوسری طرف لاہورمیں پاکستان بھر سے آئے ہوئے وکلا کے نمائندوں نے آئینی ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے اپنی احتجاجی سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، اور مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کا بطور چیف جسٹس آف پاکستان نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے۔
سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے کئی مہینوں سے جاری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے محاذ آرائی اب فیصلہ کن مرحلے کے قریب پہنچتی دکھائی دے رہی ہے: ''ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکومت کا اتحاد عدلیہ کے کچھ فیصلوں کو ایک سیاسی جماعت کے حق میں سمجھتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہ فیصلے ان کے راستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اس لیے وہ (اسٹیبلشمنٹ اور حکومت) عدلیہ کو آئین اور قانون تک محدود رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
سینئر تجزیہ کار سلمان غنی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آئینی ترامیم کا معاملہ عمران خان کے دور حکومت سے چلا آ رہا ہے، لیکن موجودہ حکومت نے بغیر تیاری اور سنجیدگی کے جس طرح اسے ڈیل کیا ہے اس سے مسلم لیگ ن کی حکومت بری طرح ایکسپوز ہو گئی ہے: ''اس لیے اب فیصلہ سازوں نے یہ معاملہ شہباز شریف سے لے کر بلاول بھٹو کو دے دیا ہے جس کے بڑے دورس نتائج ہو سکتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول پاکستان کے ڈپٹی پرائم منسٹر کا یہ کہنا کہ آئینی ترامیم کا ڈرافٹ انہوں نے بھی نہیں دیکھا تھا بہت معنی خیز بات ہے۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ جب تک سارے ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں نہیں آ جاتے پاکستان اسی طرح مسائل میں گھرا رہے گا: ''اس بحران کا حل صرف یہی ہے کہ ادارے سیاست میں مداخلت چھوڑ دیں اور اپنے آئینی اور قانونی رول پر اکتفا کر لیں۔‘‘
یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی طرف سے رواں برس مارچ میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک لکھا گیا خط عدلیہ کو درپیش چیلنجز کا واضح اظہار ہے، جس میں عدالتی معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور ججوں کو ہراساں کرنے کے خلاف شکایت کی گئی تھی۔