اوباما، بین الاقوامی برادری کا ردعمل
21 جنوری 2009اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ستائیس رکنی یورپی یونین نے امریکہ میں نئی اوباما انتظامیہ کو ایک واضح تبدیلی سے تعبیرکیا ہے۔ یورپی کمیشن کے صدرژوزے مانوعیل باروسو کا کہنا ہے کہ صدراوباما کے آنے سے نہ صرف وائٹ ہاؤس میں تبدیلی آئی ہے بلکہ وہ توقع کرتے ہیں کہ امریکی یورپی تعلقات بھی تبدیل ہوں گے۔ ’’آج دنیا کی نظریں صدراوباما کی طرف ہیں لیکن کل سے دنیا کو اور ہمیں ان کی توجہ ملنی چاہیے ۔ ہم یہاں برسلزمیں، اپنے ساتھی ملک امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی امید کرتے ہیں۔ میں ذاتی طور پرمانتا ہوں کہ صدراوباما کا انتخاب، امریکہ کے لیے ایک تاریخی موڑ تھا اوریہ شاید پوری دنیا کے لیے ایک اہم اور تاریخی موڑ ثابت ہو۔‘‘
مسلم دنیا نے امریکہ میں نئی تبدیلی کا محتاط طریقے سے خیر مقدم کیا۔ صدراوباما نے اپنی افتتاحی تقریرمیں مسلم دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دور اقتدارمیں مسلم دنیا سے تعلقات کی بنیاد باہمی احترام اورباہمی مفاد پرہوگی۔
ایک طرف مصری صدر حسنی مبارک نے صدراوباما کے نام مبارکباد کے پیغام میں ان سے اسرائیل فلسطین تنازعے کا حل، جلد ازجلد ڈھونڈ نے کی اپیل کی ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی حکام نے بھی صدراوباما پر بھرپوراعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سابق صدربش کی مشرق وسطی پالیسی میں تبدیلی نہیں لائیں گے۔ اسرائیلی وزیرخارجہ زپی لیوینی نے کہا: ’’یہ موقع ہے باراک اوباما کو مبارکباد دینے کا جو کئی اعتبار سے آزاد دنیا کے قائد بن گئے ہیں اوراسرائیل آزاد دنیا کا حصہ ہے۔‘‘
واضح رہے کہ صدر اوباما نے بائیس دن تک جاری رہنے والی اسرائیلی حماس جنگ کے دوران خاموشی اختیار کیے رکھی تھی۔ اور انہوں نے اپنے افتتاحی خطاب میں بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔
چین کی کمیونسٹ انتظامیہ نے صدراوباما کی تقریرکو سنسرشدہ ترجمے کے ساتھ پیش کیا۔ وہ حصہ سنسر کیا گیا، جس میں صدر اوباما نے ان کمیونسٹ ریاستوں کا ذکر کیا جہاں اختلاف کرنے والوں کوکچل دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد چین میں انٹرنیٹ فورمز پر صدر اوباما کی تقریر کے حصے کو زیر بحث بنایا جا رہا ہے۔