امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع مارک ایسپر اپنے بھارتی ہم منصب بالترتیب سبرامنیم جے شنکر اور راج ناتھ سنگھ کے ساتھ سالانہ 2+2 وزارتی سطح کے اجلاس کے لیے آج دارالحکومت نئی دہلی پہنچ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے وزراء اس اہم ملاقات ميں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سمیت مختلف علاقائی و عالمی اہم امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
اس دو روزہ دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع، ميزبان ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال سے بھی ملاقات کریں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں مائیک پومپیو کا بھارت کا یہ چوتھا دورہ ہے۔
امریکی وزارت دفاع کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے وزراء کے درمیان ہونے والی بات چیت چار نکات پر مرکوز رہے گی، جن میں علاقائی سلامتی و تعاون، دفاعی معلومات ایک دوسرے سے شيئر کرنا، عسکری تعاون اور دفاعی ساز و سامان کی تجارت شامل ہیں۔
اس اجلاس ميں دونوں ملکوں کے درمیان بیسک ایکسچنج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ (بی ای سی اے) پر دستخط ہو سکتے ہيں۔ اس معاہدے پر دستخط ہونے سے بھارت کو امریکا کے سیٹلائٹ ڈیٹا تک رسائی مل سکے گی، جس سے اسے اپنے ڈرونز اور میزائل سسٹم کو خامیوں سے زیادہ پاک بنانے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سال فروری میں اپنی ملاقات کے دوران بھی اس معاہدے پر جلد دستخط کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
سیاسی تجزیہ نگار اسد مرزا نے اس دورے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گو کہ یہ دورہ سالانہ میٹنگ ہے تاہم امریکی وزراء کا دورہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب بھارت اور چین کے درمیان سرحدوں پر کشيدگی چھٹے ماہ میں داخل ہو چکی ہے۔ دوسری طرف امریکا میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں اور صدر ٹرمپ کے لیے بھارتی نژاد ووٹروں کی رائے اہم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس میٹنگ کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ یہ ملاقاتیں، مذاکرات اور دورے امریکا کی جانب سے چین کے خلاف تقریباً ہر محاذ پر بالواسطہ جنگ شروع کر دینے کے بعد ہو رہے ہیں اور اسے بیجنگ کے لیے ایک واضح اسٹریٹیجک اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ امریکا کی طرف سے حالیہ دنوں میں کورونا وائرس، تجارت، ٹکنالوجی، ہانگ کانگ، تائیوان اور حقوق انسانی کے معاملات پر بھی بیجنگ کی نکتہ چینی میں شدت آئی ہے۔
خیال رہے کہ امریکا اور بھارت کے درمیان وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کی سطح پر سالانہ 2+2 وزارتی میٹنگ کا سلسلہ 2018 میں نئی دہلی میں شروع ہوا تھا۔ 2019میں اس کے تحت واشنگٹن میں میٹنگ ہوئی تھی اور اب تیسری میٹنگ دوبارہ نئی دہلی میں ہو رہی ہے۔
نومبر میں کواڈ گروپ کے تحت امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کی بحریہ بھارت کے ساحل کے قریب مشترکہ مشقوں میں حصہ لیں گی۔
امریکی وزراء کا یہ دورہ اس لحاظ سے بھی کافی اہم ہے کہ پومپیو بھارت کے بعد سری لنکا، مالدیپ اور انڈونیشیا جائیں گے۔ اپنے دورے پر نکلنے سے قبل انہوں نے ایک ٹوئٹ کر کے کہا تھا، ”میں اپنے اتحاديوں کے ساتھ ملاقات کرنے کے اس موقع کے لیے مشکور ہوں۔ اس سے ہم ایک ایسے آزاد اور کھلے انڈو۔پیسفک پارٹنرشپ کے آئیڈیا کو آگے لے جاسکیں گے جس میں تمام ملک خود انحصار، مستحکم اور خوش حال ہوں۔"
امریکا اور بھارت کے درمیان حالیہ دنوں میں باہمی سطح کے علاوہ کثیر الفریقی پلیٹ فارموں پر بھی باہمی تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔ نومبر میں کواڈ گروپ کے تحت امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کی بحریہ بھارت کے ساحل کے قریب مشترکہ مشقوں میں حصہ لیں گی۔ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تجارت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ امریکی حکومت کے مطابق بھارت امریکا سے 20 ارب ڈالر کا فوجی ساز و سامان خرید چکا ہے۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
-
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
امریکا
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔
مصنف: شمشیر حیدر