1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا چلا گیا طالبان چھوڑ گیا

18 اگست 2021

امریکا کی داخلہ پالیسی انسان دوست ہے، خارجہ پالیسی سفاک ہے۔ دنیا بدل گئی ہے مگر تھانیدارانہ رویہ نہیں بدلا۔ تیل کے ایک قطرے کے لیے خون کے بیس قطرے بہا دینا معمولی سی بات ہے۔

https://p.dw.com/p/3z6kU
DW Urdu Blogger Farnood Alam
تصویر: Privat

کام نکلوانا ہو تو انسانی حقوق کا سوال کھڑا ہو جاتا ہے۔ کام نکل جائے تو لاچاروں کو جابروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسلام کا استعمال اتنا خود مسلمانوں نے نہیں کیا جتنا پچھلی نصف صدی میں امریکا کر چکا ہے۔ عسکریت پسند پیدا کرتا ہے اور انہی عسکریت پسندوں کے خلاف لڑتا ہے۔ انتہا پسند فکر کے لیے مواقع  پیدا کرتا ہے اور پھر اسی فکر کے خاتمے کے لیے روشن خیالی کے دیے جالاتا ہے۔ جنگ سے کماتا ہے، امن پر لگاتا ہے۔ امن سے کما کر واپس جنگ پر لگا دیتا ہے۔ جمہوریت کی بہترین مثال قائم کرتا ہے، مگر پاکستان جیسے ملکوں میں طاقت کے غیر جمہوری مراکز کی حمایت کرتا ہے۔ انہی غیر جمہوری مراکز کو مزید دباو میں ڈالنا ہو تو جمہوریت کا سوال کھڑا کر دیتا ہے۔ جمہوریت پنپنے لگے تو دبے پاوں کنڈی کھول کر پتلی گلی سے نکل جاتا ہے۔ 

افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد کی کہانی تیس برس پر محیط ہے۔ ان تین عشروں میں چاچا سام نے چاہا تو طالبان کو حکمرانی کا ماحول دے دیا۔ چاہا تو انہیں بال بچوں سمیت دہشت گرد قرار دے دیا۔ دل میں آئی تو آدھوں کو گُڈ اور آدھوں کو بیڈ کر دیا۔ دل نہ مانا تو سب کو بیڈ کہہ دیا۔ ایک دن آیا کہ ایک ہی ہلے میں سب کو گُڈ کہہ دیا اور مذاکرات کا قطری قالین بچھا دیا۔ کہیں بات اٹکی تو ہیٹ گھما کے اندر سے داعش نامی کبوتر نکال دیا۔ خود تو داعش داعش کر کے پازیبیں توڑیں سو توڑیں آس پڑوس کے رادھوں کو بھی ایک ٹانگ پر خوب نچوایا۔ تلوے چھِل گئے آنگن دھنس گئے مگر نو من تیل نہیں نکلا۔ پتا چلا کہ داعش بھی وہی ہے، جو بچپن میں اللہ بابا ہو کرتے تھے۔ سو جاو ورنہ اللہ بابا آئیں گے، بوری میں ڈال کے لے جائیں گے۔ 

القاعدہ جیسی تنظیموں کے برعکس طالبان ایک عوامی قوت ہے، اس میں شک نہیں ہے۔ طالبان اِتنی بڑی قوت ہے، یہ مبالغہ ہے۔ افغانستان کی مجموعی تصویر میں طالبان کا حجم پاکستان کی جے یو آئی جتنا ہے۔ جے یو آئی بپھر جائے تو کئی اضلاع اپنے قبضے میں لینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر عوام کو حکمران چُننے کا اختیار دیا جائے اور اسی جے یوآئی کو سمیٹ کر الیکشن میں اتار دیا جائے تو کتنی نشستیں حاصل کر لے گی۔ زیادہ سے زیادہ بارہ؟ بہت ہوگئیں تو پندرہ؟

مرکزی کھلاڑی کی خاموش تائید موجود ہو تو آپ پندرہ روز تک فیض آباد کی پانچ رویہ سڑک ہر طرف سے بند کر کے بھی بیٹھ سکتے ہیں۔ عدالت کے احکامات کو مسترد کر سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر کا استعفی لے کر جا سکتے ہیں۔ ڈی چوک میں داخل ہو سکتے ہیں۔ پارلیمان کے دروازے اکھیڑ سکتے ہیں۔ پی ٹی وی کو قبضے میں لے کر خوف ہراس پھیلا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا گھیراو کر سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہو سکتے ہیں۔ راتوں رات رہا ہوکر انتخابی مہم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ یہی خاموش تائید چھِن جائے تو وزیر اعظم ہوکر بھی اپنے سائے سے گھبرا جاتے ہیں۔ 

کسی کی رائے کے ٹھیک ہونے کی یہ دلیل نہیں ہو سکتی کہ اُس میں مارنے کی صلاحیت موجود ہے۔ بندوق دلیل ہے اور نہ ہی حقِ حکمرانی کا جواز ہے۔ بندوقچی اگر بیرکوں سے نکل کر پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیتے ہیں اور عوامی نمائندوں کو گھروں تک محدود کر دیتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بندوقچی تعداد میں عوام سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ خوف صرف بندوق کا نہیں ہوتا۔ بھوک اور افلاس کا خوف سب سے بڑا خوف ہوتا ہے۔ کوئی مرنا چاہتا ہے اور نہ رات بھوکا سونا چاہتا ہے۔ مزار شریف کے باہر بیٹھے ہوئے ریڑھی بان کو فوری طور پر اپنے ریڑھی کے تحفظ کی ضمانت چاہیے۔ اِس ضمانت پر اگر وہ بندوق کے خلاف مزاحمت نہیں کر رہا تو یہ اطمینان کا ثبوت نہیں ہے۔ یہ ثبوت تب سامنے آئیں گے جب بندوق ٹھنڈی پڑ جائے گی اور انتخاب کا ڈنکا پٹے گا۔

طالبان آٹھ برس حکومت میں رہے، امریکا کے لیے یہی وارے میں تھا۔ طالبان پندرہ برس تک دہشت گرد رہے، امریکا کی افغانستان میں موجودگی کا یہی جواز تھا۔ اس جواز کو تب تک قائم رکھا گیا جب تک موجودگی مطلوب تھی۔ جنرل مشرف کے دور میں مجلس عمل اور ٹی ٹی پی کی زور آوری کا ایسا ہی تاثر تھا۔ یہ زور آوری مشرف کے اقتدار اور امریکی کولیشن سپورٹ فنڈ کا جواز تھی۔ الیکشن آج بھی اُسی طرح ہوتے ہیں اور مذہبی انتہا پسندی اُسی طرح زوروں پر ہے، مگر کہاں ہے متحدہ مجلسِ عمل؟ جہاد کی ہوا سے جو ہاتھی پھُلائے گئے تھے، وہ بھی سمیٹ کر قومی اثاثوں کے ساتھ رکھ دیے گئے ہیں۔ ضرورت پڑتی ہے تو پھر سے پھُلاکر چوک چوراہوں پر رکھ دیے جاتے ہیں۔ کیا یہ تائیدِ خداوندی ہے؟ نہیں، یہ غیر عوامی طاقتوں کی ضرورت ہے۔ طاقت کے غیر عوامی مراکز کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو تو یہی لوگ بھلی کا بکرا بنتے ہیں۔ چاہو تو پڑوسیوں کے کھیت میں چھوڑدو، چاہو تو بھینٹ چڑھادو۔

امریکا نے ایک دن افغانستان سے جانا تھا، سو وہ چلا گیا۔ جاتے جاتے اس تاثر کو پختہ کر گیا کہ طالبان واقعی کوئی ناقابلِ شکست طاقت ہے۔ ملکوں ملکوں گھما کر باور کروایا کہ کہ ہمارے تائید کنندہ اب یہ ہیں۔ اس بندوبست میں سب سے تکلیف دہ باتیں دو رہیں۔ ایک، امریکا نے افغانستان کی سیاسی قیادت کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ دوسرا، پاکستان کو دن کے اجالے میں پہچاننے سے انکار کر دیا۔

 ہمارے ہاں چونکہ سیاسی رویے ابھی پکنے رکھے ہیں، اس لیے ٹیلی فون کال کے سوال پر موجودہ حکومت کو تنقید اور طنز و مزاح کے بھاڑ میں جھونک دیا گیا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔ قیدیوں میں القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے قیدی بھی رہا ہو چکے ہیں۔ ایسٹ ترکستان موومنٹ پر سے پابندی ہٹ چکی ہے، جو اب کابل میں پگڑیوں کے گھنے سائے میں قہوے کی چسکیاں لے رہے ہیں۔ ساتھ ہی جو بائیڈن فرما چکے ہیں کہ ہم دہشت گرد عناصر کو کسی دوسرے ملک میں منتقل ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اب چونکہ یہ صرف امریکا کو ہی دِکھ رہا ہے، اس لیے کسی بھی عام انسان کی طرح ریاستِ پاکستان کے لیے بھی بروقت اندازہ لگانا مشکل ہو رہا ہے کہ میں نے کس سمت میں جانا ہے۔ ہر دو راستے میں سے، جس کا انتخاب کرتا ہے، اس کے آخر میں ایک بند گلی نظر آتی ہے۔ منظر نامہ واضح ہونے کے بعد پاکستان کے حصے میں طالبان آئیں گے؟ یہ ضروری نہیں ہے۔ افغان سیاسی قوتیں آئیں گی؟ یہ بھی ضروری نہیں ہے۔ مستقبل میں ہمارے گھر نہ اجڑیں، یہ بہت ضروری ہے۔

ایران نے پچھلی کھڑکی سے چوری چپکے خط پھینک کر ملا برادر کو کہہ دیا ہے کہ گھر پہ کوئی نہیں ہے آجاو۔ ابھی انکھ مٹکا چل رہا ہے، گھر والے مان گئے تو پیغامِ نکاح بھی بھیج دیں گے۔ چین اپنی پرانی روش پر رہے گا۔ عالمی طاقتیں خطے میں جس بھی مولا جٹ پر ہاتھ رکھتی ہے، چین اس کو کاروبار میں شریک کر لیتا ہے۔ سی پیک بھی ایسی ہی ایک کوشش ہے۔ جو بانس لگا کر بھتے لے رہے تھے انہیں ٹھنڈے ٹول پلازوں میں بٹھا رہا ہے۔ بہت مشکل ہے کہ روس کی طرح کبھی چین آتشِ نمرود میں بے خطر کودے۔ اسے ٹرک گزارنا ہوتا ہے، وہ چوکیدار کو ساتھ ملا کر  بھی گزار لیتا ہے۔ دو پیسے اضافی دے کر ایسٹ ترکستان کے لڑاکوں کو ٹرک اڈے کا منشی بھی لگا سکتا ہے۔

 کہانی رہ جاتی ہے افغانستان کی داخلی سیاست کی۔ یہ جو ایک کے بعد ایک گِلیاں اُڑی ہیں، ہوا سے نہیں اُڑیں۔ غیر ریاستی لڑاکوں نے مزاحمت نہیں کی، وہ جان گئے تھے کہ افغان افواج نے مزاحمت نہیں کرنی۔ افواج نے مزاحمت نہیں کی، وہ جانتے تھے کہ کابل میں مزاحمت کے فیصلے نہیں ہیں۔ کابل نے مزاحمت نہیں کی، وہ جانتا تھا کہ فیصلے ہو چکے ہیں۔ جو نہیں جانتے تھے دھیرے دھیرے وہ بھی جان گئے کہ کسی بھی خون ریزی کے بعد اگر ابو بیچ بچاو کرنے آ بھی گئے تو شدن کے لڑکے کو کچھ نہیں کہیں گے۔ الٹا میرے کان کے نیچے ایک رکھ کے دیں گے اور چلتا کر دیں گے۔ 

امریکا نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ طالبان اگر کابل پہنچتے ہیں تو ہم ان کی تائید کریں گے۔ طالبان اِس تائید کو بروئے کار لارہے ہیں، مگر اِس تائید کی قیمت وہ اکیلے نہیں چکانا چاہتے۔ لڑنا تو طالبان ویسے بھی جانتے تھے، بیس برس کی آنکھ مچولی میں وہ سیاست کی ابجد بھی سیکھ گئے ہیں۔ وہ اس احساس کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ آج والے سپیس میں سارا کچھ ہم ہڑپ کریں گے تو کل پیدا ہونے والی صورتِ حال میں ٹینٹوا بھی ہمارا ہی دبایا جائے گا۔ اسی واسطے طالبان قومی سطح کے ایک سیاسی بندوبست کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ بندوبست غیر جمہوری ہوا تو بھی عوامی نمائندگی کی کوئی صورت ضرور نکالی جائے گی۔ کچھ لو اور کچھ دو کے تحت بات کرنے کے لیے وہ تیاری کر چکے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنے کے لیے اپنی حیثیت باور کروانی ہوتی ہے اور طالبان اپنی حیثیت کی نمائش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

معمول کے حالات تک پہنچنے کے لیے محفوظ راستہ چاہیے ہوتا ہے۔ مذاکرات کے نتیجے میں نکلنے والے راستوں میں محفوظ راستہ اسی کو کہا جاتا ہے، جس میں فیس سیونگ موجود ہو۔ فیس سیونگ کو ہی ہماری بھاشا میں کسی کا منہ رکھنا کہتے ہیں۔ طالبان کو ہی نہیں، باعزت راستہ ڈاکٹر اشرف غنی کو بھی چاہیے تھا۔ طالبان کے آنے تک اشرف غنی صدارتی محل میں موجود تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ اچانک دروازے پہ دستک ہوئی، بیٹی نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو کہا کہ بابا تبلیغی جماعت والے آئے ہیں۔ اشرف غنی صدارتی محل میں مہمانوں کی آمد کے لیے بندوبست بھی کر رہے تھے اور روایتی حریف کو للکار کر اپنا شملہ بھی بچا رہے تھے۔ اشرف غنی مسلسل للکار رہے تھے، طالبان نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔ طالبان چلے آ رہے تھے، کابل نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔ اشراف غنی نے قیدی رہا نہیں کیے، مگر قیدی رہا ہو گئے۔ اشرف غنی نے استعفی نہیں دیا، مگر اشرف غنی چلے گئے۔

چالیس برس کی بے چہرہ جنگ میں سوویت یونین کے حصے بخرے ہو گئے۔ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ پاکستان چلتے چلتے ایک سُرخ لکیر پر آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ صرف امریکا ہے جو بھولا بن کر اپنے دائرے میں اِس طرح سلامت کھڑا ہے، جیسے وہ کبھی افغانستان آیا ہی نہیں تھا۔ مگر ہم مستقبل کے منظرنامے میں اس بیانیے کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں کہ امریکا شکست کھا چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خراسان سے کالی پگڑیوں والا کوئی لشکر کبھی برآمد ہوا تو ہم مایوس اسے بھی نہیں کریں گے۔