1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشمالی امریکہ

امریکا اور فلسطین میں پانچ برس بعد اقتصادی امور پر بات چیت

15 دسمبر 2021

دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی امور پر مذاکرات ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے سے جمود کا شکار رہے ہیں۔ اب امریکا کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی ''سلامتی اور خوشحالی'' کا خواہاں ہے۔

https://p.dw.com/p/44H8U
Palästina Ramallah | US Außenminister Blinken und Mahmud Abbas
تصویر: Alex Brandon/AP Photo/picture alliance

امریکی وزارت خارجہ نے 14 دسمبر منگل کے روز ایک بیان میں کہا کہ 'امریکا فلسطین ایکانومک ڈائیلاگ' (یو ایس پی ای ڈی) گزشتہ پانچ برس میں پہلی بار پھر سے شروع ہوئے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ''شرکاء نے امریکی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعلقات کی بحالی کی اہمیت کو تسلیم کیا اور تعاون کو وسعت دینے اور اسے مستحکم کرنے کا عہد کیا ہے۔'' 

مذاکرات کے امریکی وفد میں 'نیئر ایسٹرین افیئرز'  وزارت کے نائب وزیر خارجہ یائل لیمپرٹ سمیت امریکا کے متعدد سینیئر سفارتی اور تجارتی اہلکار شامل تھے۔ بات چیت کے دوران لیمپرٹ نے فلسطینی حکام کو بتایا کہ صدر جو بائیڈن کی حکومت فلسطینی علاقوں کے لیے ''آزادی، سلامتی اور خوشحالی'' چاہتی ہے۔

یائل لیمپرٹ کا کہنا تھا، ''فلسطینی معیشت کی ترقی ہمارے سیاسی مقاصد کو بھی آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔مذاکرات کے ذریعے ایک ایسا دو ریاستی حل، جس میں ایک قابل عمل فلسطینی ریاست اسرائیل کے ساتھ امن اور سلامتی کے ساتھ شانہ بشانہ رہ رہی ہو۔''

Israel USA Palästinenser Joe Biden Mahmoud Abbas
تصویر: Debbie Hill/AP Photo/picture alliance

امریکا اور فلسطین کے تعلقات کیسے ہیں؟

'امریکا فلسطین اکنامک ڈائیلاگ' (یو ایس پی ای ڈی) کی اس سے پہلے آخری میٹنگ سن 2016 میں صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے قبل ہوئی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ فلسطین کے حوالے سے اسرائیل کی سخت پالیسیوں کی حامی تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ اسی دور میں امریکا نے اسرائیل کی ایما پر تیل ابیب سے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا متنازعہ فیصلہ کیا تھا۔

سن 2016 میں ملاقات سے پہلے یو ایس پی ای ڈی کی آخری ملاقات سن 2004 میں ہوئی تھی۔ لیکن جو بائیڈن کی انتظامیہ نے فلسطینی

 علاقوں میں امریکی قونصل خانے کو دوبارہ کھولنے کا وعدہ کیا تھا۔ حالانکہ امریکا نے اس منصوبے کے لیے کوئی مقرر وقت فراہم نہیں کیا ہے تاہم ٹرمپ کے دور میں فلسطین کے لیے بند کی گئی امداد کو بحال کر دیا ہے۔

ان اقدامات کے باوجود دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ گرچہ امریکا یروشلم میں اپنے سفارت خانے کے اندر فلسطینی امور کا بھی دفتر رکھتا ہے، تاہم فلسطینی اتھارٹی نے یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کھولنے کے رد عمل میں، واشنگٹن کے ساتھ کسی بھی شکل میں عوامی عدم تعاون کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔

  ایلیزابتھ شوماکر (ص ز/ ج ا)

صدر ٹرمپ کے یروشلم کے فیصلے کے خلاف مسلمانوں کے مظاہرے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں