1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان فوج کیسے تاش کے پتوں کا محل ثابت ہوئی؟

18 اگست 2021

کسی کو اس کی توقع نہیں تھی کہ افغان فوج طالبان عسکریت پسندوں کے سامنے معمولی سی مزاحمت بھی نہیں کرے گی۔ طالبان نے جس انداز میں افغانستان پر کنٹرول حاصل کیا، وہ حیران کن خیال کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3z7ZA
Afghanische Soldaten erobern den Kontrollpunkt der Taliban in Laghman
تصویر: Parwiz/REUTERS

امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر سولہ اگست کو اپنی قوم کے نام تقریر میں افغانستان کی صورت حال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کو درست فیصلہ قرار دیا اور انہوں نے افغان قیادت اور فوج پر الزام لگایا کہ وہ اپنے ملک میں طالبان کی چڑھائی کو روکنے میں ناکام رہے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان قیادت طالبان کی پیشقدمی روکنے میں پوری طرح ناکام رہی۔

طالبان کا افغانستان پر قبضہ: دیوبند میں کمانڈو سینٹر کھولنے کا اعلان

امریکی فوجی افغان فوج کی جنگ نہیں لڑ سکتی

صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکا کی فوج ایک ایسے ملک کی فوج کی جنگ نہیں لڑ سکتی جس کے اندر اپنے ملک کی حفاظت کا احساس نہیں تھا اور لڑائی کے لیے تیار بھی نہیں تھی۔ بائیڈن کے مطابق ایسی فوج کے لیے امریکی فوجیوں کو مرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی مبصرین جدید اسلحے سے لیس افغان فوج کی طالبان کے خلاف عدم مزاحمت پر حیران ہیں۔

Afghanistan | Taliban Kämpfer in Kabul
طالبان عسکریت پسند کابل کے ایک علاقے میں گشت کرتے ہوئےتصویر: Rahmat Gul/AP/picture alliance

مبصرین کا مزید کہنا ہے کہ امریکا دو دہائیوں تک ایک ایسی فوج کی عسکری تربیت کرتا رہا جس کے اندر لڑنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ ستر سے اسی ہزار جنگجوؤں کے سامنے تین لاکھ تربیت یافتہ فوج کا ہتھیار ڈالنا بھی سمجھ سے بالاتر خیال کیا جا رہا ہے۔

طالبان کے کابل پر قبضے سے آئی ایس اور القاعدہ کو کتنا فائدہ ہوگا؟

نیٹو کی فضائی مدد بھی نہیں

طالبان کے سامنے افغان فوج کے ہتھیار ڈالنے کی وجوہات جمع کرنے کا عمل جاری ہے۔ افغان سرزمین پر طالبان کے خلاف دو دہائیوں کی جنگ میں کابل حکومت کی فوج کو مسلسل مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے جنگی طیاروں کی مدد حاصل رہی اور ان کی مدد سے ہی ان کی پیشقدمی ہوتی تھی۔ نیٹو کے فوجی انخلا کے بعد افغان فوج کسی حد تک بے آسرا ہو گئی اور انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ جنگی میدان میں کونسی حکمت عملی اختیار کریں۔

Afghanistan Anführer der Taliban Mullah Baradar Akhund
ملا برادر اخوند کا دوسری طالبان رہنماؤں کے ساتھ گروپ فوٹوتصویر: REUTERS

کابل میں مقیم محمد شفیق ہمدم سکیورٹی امور کی ماہر ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ افغان فوج مالی اور عسکری اعتبار سے امریکا پر تکیہ کرتی تھی اور ان کے انخلا نے اس فوج کی تمام کمزوریوں کو آشکارا کر دیا۔ ایک اور ماہر عتیق اللہ امرخیل کا کہنا ہے کہ امریکا اور نیٹو کی افواج کے غیر مشروط انخلا نے طالبان کے حوصلے بلند کر دیے تھے اور طالبان کو یقین تھا کہ وہ امریکا اور نیٹو کی عدم موجودگی میں کابل حکومت کو اقتدار سے فارغ کر دیں گے اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔

امریکا چلا گیا طالبان چھوڑ گیا

امریکا کے بغیر افغان فوج کا مورال ختم

افغان فوج کی تربیت اور انہیں جدید اسلحے سے لیس کرنے پر کم و بیش تراسی بلین ڈالر خرچ کیے۔ اس کی توقع کی جا رہی تھی کہ مقامی فوج جدید تربیت اور اسلحے کے ساتھ طالبان عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کی اہل ہو گی۔ ایسی توقع امریکی فوجی حکام کو بھی تھی لیکن افغان فوج کسی کی توقع پر پوری اتر نہیں سکی۔

مبصرین کے خیال میں افغان فوج کے سرنڈر کرنے کی دو بڑی وجوہات ہیں، ان میں ایک کرپشن اور دوسری  ہمت و حوصلے کا نہ  ہونا۔ دوسری جانب طالبان عسکریت پسند بے جگری سے آگے بڑھتے رہے۔

Washington Rede Biden  Afghanistan
امریکی صدر جو بائیڈن وائٹ ہاؤس میں افغانستان سے متعلق تقریر کرتے ہوئےتصویر: Evan Vucci/AP Photo/picture alliance

ماہرین نے افغان فوج کی ناکامی ایک اور وجہ بے فائدہ اور کسی بڑے نظریے کے بغیر جنگ میں شامل ہونا بھی خیال کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فوج کے اہلکاروں کی اپنے قبیلوں اور علاقوں سے بھی وفاداری آخر وقت تک موجود تھی اور یہ بھی ان کی ہمت کو کمزور کرنے میں اہم رہی۔

اعتدال پسندی کے طالبان کے دعوے اور عالمی برادری کے شبہات

عسکری امور کے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان سپاہیوں میں مغربی قوتوں کے لیے لڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور ان کی کابل حکومت کے لیے لڑنے  کا عہد محض کاغذی تھی۔

شامل شمس، سیف اللہ (ع ح/ع ا)