1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقافغانستان

افغانستان میں 'اب پوری نسل کا مستقبل خطرے میں'، اقوام مت‍حدہ

16 اگست 2024

اقوام مت‍حدہ نے ‍خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں"اب پوری نسل کا مستقبل خطرے میں ہے"۔ تین سال قبل طالبان کی حکومت آنے کے بعد عائد کی جانے والی پابندیوں کے باعث مزید 14 لاکھ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4jX7O
افغانستان میں 12 سال سے کم عمر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی نہیں ہے
افغانستان میں 12 سال سے کم عمر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی نہیں ہےتصویر: Sayed Khodaiberdi Sadat/AA/picture alliance

اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے جمعرات کو بتایا کہ افغانستان میں طالبان حکمرانوں کے اقدامات نے گزشتہ دو دہائیوں میں تعلیم کے شعبے میں ہونے والی تیزرفتار پیش رفت کو ضائع کر دیا ہے جس سے ایک پوری نسل کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔

اس وقت افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے لیے ثانوی اور خواتین کے لیے اعلیٰ درجے کی تعلیم کا حصول ممنوع ہے۔ تین سال قبل طالبان کی حکومت آنے کے بعد عائد کی جانے والی پابندیوں کے باعث کم از کم 14 لاکھ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو گئی ہیں۔

افغانستان: اقتدار کے تین برس پر طالبان رہنماؤں نے کیا کہا؟

طالبان کے خلاف افغان خواتین کی پہل

طالبان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے ہی تعلیم سے محروم لڑکیوں سمیت اس وقت ملک میں تقریباً 25 لاکھ لڑکیاں گھروں میں بیٹھی ہیں۔ یہ اسکول جانے کی عمر میں لڑکیوں کی 80 فیصد تعداد ہے۔

یونیسکو نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں بڑھتی ہوئی کمی کا نتیجہ بچہ مزدوری اور نوعمری کی شادیوں میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔

یونیسکو نے بتایا ہے کہ 2021 کے بعد یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم طلبہ کی تعداد بھی کم ہو کر نصف رہ گئی ہے۔ نتیجتاً ملک کو ایسی نوکریوں کے لیے تربیت یافتہ نوجوانوں کی کمی کا سامنا ہو گا جن میں اعلیٰ درجے کی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ اس کا نتیجہ ملک کے لیے ترقیاتی مسائل کی صورت میں برآمد ہو گا۔

انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان خواتین اور لڑکیوں کو دانستہ طور پر محکوم رکھنے کی وسیع اور منظم کوشش کر رہے ہیں
انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان خواتین اور لڑکیوں کو دانستہ طور پر محکوم رکھنے کی وسیع اور منظم کوشش کر رہے ہیںتصویر: AHMAD SAHEL ARMAN/AFP

صنفی بنیاد پر ظلم کے مترادف

یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے کہا ہے کہ تعلیم کے حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی برادری افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم غیرمشروط طور پر بحال کرانے کے لیے متحرک کردار ادا کرے۔

افغان طالبان سے متعلق بین الاقوامی موقف نرم ہوتا ہوا؟

افغانستان: لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول سے محروم ہوئے ایک ہزار دن گزر گئے

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے طرز حکمرانی کو وقت کے ساتھ نظرانداز کر دینا خطرناک ہو گا۔ انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے 36 غیرجانبدار ماہرین بھی گزشتہ روز جاری ہونے والے اپنے مشترکہ بیان میں یہی کچھ کہہ چکے ہیں۔

انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان خواتین اور لڑکیوں کو دانستہ طور پر محکوم رکھنے کی وسیع اور منظم کوشش کر رہے ہیں جو انسانیت کے خلاف جرم اور صنفی بنیاد پر ظلم کے مترادف ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لوگ ایسے ماحول کے حق دار ہیں جہاں ہر فرد کے حقوق، وقار اور انسانیت کا تحفظ اور احترام ہو۔ انہیں تحفظ، مدد اور یکجہتی فراہم کرنے میں مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔

یونیسکو کے مطابق، 2022 میں 57 لاکھ لڑکیاں اور لڑکے پرائمری تعلیم حاصل کر رہے تھے جبکہ 2019 میں یہ تعداد 68 لاکھ تھی
یونیسکو کے مطابق، 2022 میں 57 لاکھ لڑکیاں اور لڑکے پرائمری تعلیم حاصل کر رہے تھے جبکہ 2019 میں یہ تعداد 68 لاکھ تھیتصویر: Naqibullah Eshaq

پرائمری تعلیم پر اثرات

اگرچہ ملک میں 12 سال سے کم عمر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی نہیں ہے تاہم 2021 کے بعد پرائمری تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی تعداد میں بھی بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے۔ یونیسکو کے مطابق، 2022 میں 57 لاکھ لڑکیاں اور لڑکے پرائمری تعلیم حاصل کر رہے تھے جبکہ 2019 میں یہ تعداد 68 لاکھ تھی۔

رپورٹ کے مطابق یہ کمی طالبان کی جانب سے لڑکوں کے اسکولوں میں خواتین اساتذہ کی تعیناتی پر عائد پابندی کا نتیجہ ہے جس سے اساتذہ کی کمی ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں، ملک کے مشکل سماجی معاشی ماحول میں والدین بھی اپنے بچوں کو سکول بھیجنے میں دلچسپی نہیں لے رہے۔

یونیسکو نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ ملک میں لڑکیوں اور خواتین کے حق تعلیم کی بحالی کا بھرپور عزم کرے کیونکہ کمرہ جماعت میں اساتذہ کے روبرو تعلیم ہی سیکھنے کا سب سے موثر ذریعہ ہوتا ہے۔

ج ا ⁄  ص ز (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)