1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان ميں امريکی اخراجات، کچھ کھويا، کچھ پايا

عاصم سليم25 جولائی 2014

شورش زدہ ملک افغانستان کی تعمير نو کے ليے امريکا 2001ء سے لے کر اب تک ايک سو بلين ڈالر سے زائد کی مالی امداد دے چکا ہے تاہم جہاں متعدد منصوبے کامياب رہے، وہيں کئی منصوبوں ميں خاصی رقم ضائع بھی ہو چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Cih2
تصویر: DW/H.Hashimi

سمندر نہ ہونے کے باوجود افغانستان کے ليے تيز رفتار کشتياں، اکثريتی طور پر گندم کھانے والے افغان عوام کے ليے سويا پھلی کی پيداوار کا پلانٹ اور پرواز کے منتظر کئی ہوائی جہازوں کی قطاريں ۔۔۔ يہ سب گواہی ديتے ہيں شورش زدہ ملک افغانستان ميں امريکا کی 103 بلين ڈالر کی سرمايہ کاری سے منسلک چند ناقص فيصلوں کی۔

جان سوپکو کو دو برس قبل افغان ری کنسٹرکشن پروگرام SIGAR کا انسپکٹر جنرل مقرر کيا گيا تھا اور اسی وقت سے وہ امريکی ايجنسيوں پر اس سلسلے ميں دباؤ ڈالتے آئے ہيں کہ وہ افغانستان ميں کس طرح سرمايہ ضائع کرتی آئی ہيں۔ سوپکو امريکی و افغان اہلکاروں کی بدعنوانی پر بھی روشنی ڈالتے آئے ہيں۔ ان کے بقول 2001ء سے رواں سال کے اختتام تک واشنگٹن افغانستان ميں تعمير نو پر جتنی رقم خرچ کر چکا ہوگا، وہ پورے کے پورے مارشل پلان پر آنے والے اخراجات سے بھی زيادہ ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ مارشل پلان نامی منصوبے کو دوسری عالمی جنگ کے بعد يورپی معيشتوں کی تعمير نو کے ليے ترتيب ديا گيا تھا۔

افغانستان کی تعمير نو کے ليے امريکا سو بلين ڈالر سے زائد کی مالی امداد دے چکا ہے
افغانستان کی تعمير نو کے ليے امريکا سو بلين ڈالر سے زائد کی مالی امداد دے چکا ہےتصویر: DW/H. Hashimi

نيوز ايجنسی اے ايف پی سے بات چيت کرتے ہوئے جان سوپکو نے کہا، ’’کافی رقم کو تو سمجھ داری سے خرچ کيا گيا، ليکن کافی کو نہيں بھی۔ ممکنہ طور پر کئی بلين ڈالر ضائع کيے جا چکے ہيں۔‘‘ سوپکو نے مزيد وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے اسکول تعمير کيے جو مسمار ہو گئے، کلينک بنائے جہاں ڈاکٹر دستياب نہيں اور سڑکيں تعمير کيں جو ٹوٹ رہی ہيں۔ ہم نے بہت زيادہ پيسہ، بہت تيزی سے ايک ايسے انتہائی چھوٹے ملک ميں خرچ کيا، جہاں نگرانی یا احتساب نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘

سوپکو کے مطابق سويا پھليوں کی پيداوار کے ايک منصوبے پر آنے والے قريب 34.4 ملين ڈالر کے اخراجات مکمل طور پر ضياع ہوئے اور امريکا کے اس روييے کی نشاندہی کرتے ہيں کہ ’ہميں معلوم ہيں افغان عوام کو کيا چاہيے۔‘ سوپکو نے بتايا، ’’پلانٹ لگانے کا يہ زبردست خيال ہميں آيا ليکن ہم نے افغان شہريوں سے بات چيت نہيں کی۔ افغان شہری سويا پھلی نہيں اگاتے، وہ اسے پسند نہيں کرتے اور نہ ہی اسے کھاتے ہيں۔ يہاں اس کی کوئی منڈی نہيں۔‘‘

امريکا نے افغانستان کے ساتھ تعاون اور اس کی مدد کا کہہ رکھا ہے اور ڈر يہ ہے کہ افغانستان سے بين الاقوامی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد نگرانی يا جواب دہی کا يہ عمل مزيد کم ہو جائے گا۔ افغانستان کے ليے امريکا مزيد بيس بلين ڈالر کی امداد جاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس ميں سے چھ تا آٹھ بلين مستقبل قريب ميں سالانہ بنيادوں پر افغانستان ميں سرمايہ کاری اور وہاں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جانے ہيں۔ افغان ری کنسٹرکشن پروگرام کے انسپکٹر جنرل جان سوپکو نے واضح کيا کہ وہ افغانستان کو دی جانے والی مالی امداد ميں کٹوتی نہيں بلکہ احتساب اور اس کا درست استعمال چاہتے ہيں۔

افغانستان سے امريکی افواج کے انخلاء کے ساتھ ہی SIGAR کا چاليس رکنی عملہ بھی افغان سرزمين چھوڑ دے گا۔ سوپکو کے مطابق امريکی حکومت کو ابھی سے اس بارے ميں سوچ بچار کرنی چاہيے کہ کئی دہائيوں سے جنگ کے شکار اس ملک کی فلاح و بہبود کے ليے مہيا کيے جانے والے فنڈز پر مستقبل ميں نظر کس طرح رکھی جائے۔