افغانستان سے امریکی انخلاء: رپورٹ میں بائیڈن پر سخت تنقید
9 ستمبر 2024فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں امریکی فوج کے افغانستان سے عجلت میں کیے گئے اس انخلا پر ریپبلکنز نے تنقید کو دہرایا جن کا وہ بار بار اظہار کر چکے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ فوری انخلاء سے افغانستان میں افراتفری پھیل گئی، جس کے بعد کابل ہوائی اڈے پر ایک خودکش بم دھماکے میں 13 امریکی فوجی مارے گئے اور طالبان کی جانب سے دارالحکومت پر فوری طور پر دوبارہ قبضہ کر لیا گیا تھا۔
امریکی رپورٹ میں افغانستان سے اپنی ہی افواج کے انخلاء پر تنقید
افغانستان: امریکی فوج کے انخلاء کی سالگرہ پر طالبان کا جشن
ہاؤس آف فارن افیئرز کمیٹی میں ریپبلکنز کی طرف سے تحریر کردہ رپورٹ میں بائیڈن پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ انخلا کے 'فیصلے کے ممکنہ (نقصان دہ) نتائج کو کم کرنے' میں ناکام رہے۔
اس رپورٹ نے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے چند ماہ قبل، امریکہ کی طویل ترین جنگ پر تنقید کو پھر سے جنم دیا ہے۔
رپورٹ میں کیا کہا گیا؟
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ رپورٹ ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین مائیکل میکول کی قیادت میں تین سالہ تحقیقات کے بعد اخذ کی گئی ہے۔
افغانستان سے انخلا کے فیصلے سے امریکیوں کی اکثریت ناخوش
افغانستان سے انخلاء کا بائیڈن کا فیصلہ درست تھا، انٹونی بلینکن
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے غیر فوجی عملے کو نکالنے کا اپنا فیصلہ بہت تاخیر سے کیا اور 16 اگست کو باضابطہ طور پر اس کا حکم دیا، انتظامیہ واشنگٹن میں محکموں اور افغانستان میں حکام کے درمیان بات چیت کرنے میں ناکام رہی اور افغان شہریوں کی روانگی کے لیے کاغذی کارروائی کو بھی صحیح طریقے اور وقت پر انجام نہیں دیا۔
دوحہ معاہدے، جس نے امریکہ کے انخلا کی راہ ہموار کی، پرسابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری 2020 میں دستخط کیے تھے۔ یہ معاہدہ ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیان اس وقت کی افغانستان کی حکومت کو شامل کیے بغیر طے پایا تھا۔
بائیڈن کو طالبان کو معاہدے کی شرائط پرقائم رکھے بغیر معاہدے کو آگے بڑھانے اور کابل میں گروپ اور حکومت کے درمیان جنگ بندی کو یقینی بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ "تمام امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا بائیڈن کا فیصلہ سکیورٹی صورتحال، دوحہ معاہدے، یا ان کے سینیئر قومی سلامتی کے مشیروں یا ہمارے اتحادیوں کے مشورے پر مبنی نہیں تھا۔ بلکہ، یہ ان کی دیرینہ اور غیر متزلزل رائے پر مبنی تھا کہ امریکہ کو اب افغانستان میں نہیں رہنا چاہیے۔"
رپورٹ میں کہا گیا کہ "عالمی سطح پر امریکہ کی ساکھ کو اس وقت شدید نقصان پہنچا جب ہم نے افغان اتحادیوں کو طالبان کی انتقامی ہلاکتوں کے لیے چھوڑ دیا - افغانستان کے لوگوں کو جن کے تحفظ کا ہم نے وعدہ کیا تھا۔"
مزید برآں، طالبان کے زبردستی کابل پر دوبارہ قبضے نے "ہماری وطنی سلامتی کے لیے خطرات بڑھا دیے ہیں، آنے والے برسوں میں بیرون ملک کھڑے ہونے کو داغدار کر دیا ہے، اور پوری دنیا میں دشمنوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔"
رپورٹ پر ڈیموکریٹس کی جانب سے نکتہ چینی
اے ایف پی کے مطابق ڈیموکریٹس نے اس رپورٹ کی اشاعت کے وقت کو امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات کو متاثر کرنے کی کوشش قرار دیا۔
ٹرانپسورٹیشن کے وزیر پیٹ بٹگیگ نے رپورٹ کے اجرا سے قبل کہا،"اگر ان کے پاس (افغانستان سے انخلا کے بارے میں) اندازہ لگانے کے لیے تین سال تھے تو وہ صدارتی انتخابات کے سال میں لیبر ڈے کے بعد یہ رپورٹ کیوں پیش کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس جنگ کو پانچویں صدر کو وراثت میں نہ جانے دیا جائے اور اس جنگ کو ختم کیا جائے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان شیرون یانگ نے کہا کہ یہ رپورٹ "اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے بعض حقائق کو استعمال کرنے، غلط تشریح کرنے اور پہلے سے موجود تعصبات" پر مبنی ہے۔
ج ا⁄ ص ز ( روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)