1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

افریقی رہنماؤں کا ’امن مشن‘ یوکرین کے بعد روس کے دورے پر

17 جون 2023

ان افریقی ممالک کا مقصد ماسکو اور کییف کو جنگ بندی پر راضی کرنا ہے تاکہ وہ دنیا کے ساتھ ساتھ اپنے خطے کو بھی اس تنازعے کے اثرات سے بچا سکیں۔ افریقی ممالک روس اور یوکرین سے خوراک اور کھاد کی ترسیل پر انحصار کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4SiPt
Russland - Ukraine - Konflikt
تصویر: Efrem Lukatsky/AP/picture alliance

روسی صدر ولادیمیر پوٹن سترہ جون بروز ہفتہ روس کے دورے پر آئے ہوئے افریقی رہنماؤں کے ایک گروپ کی میزبانی کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ایک  خود ساختہ'امن مشن‘ پر جزائر کومورو، سینیگال، جنوبی افریقہ اور زیمبیا کے صدور کے ساتھ ساتھ مصر کے وزیر اعظم اور جمہوریہ کانگو اور یوگنڈا کے اعلیٰ مندوبین سمیت سات ممالک کے نمائندوں نے جمعے کے روز یوکرین کا دورہ کیا تھا۔

روسی سرزمین پر حملوں سے امریکہ نے خود کو الگ کر لیا

ان کے اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 16 ماہ پرانی جنگ ختم کرنے میں مدد کرنا ہے۔ افریقی رہنما صدر پوٹن سے ملاقات کے لیے ہفتے کے روز سینٹ پیٹرزبرگ پہنچے، جہاں انہوں نے روس کے اس دوسرے سب سے بڑے شہر میں ایک کاروباری فورم میں شرکت بھی کی۔

یوکرین کے لیے افریقی رہنماؤں کا یہ مشن  امن کی دیگر کوششوں کے تناظر میں  کیا جا رہا ہے، جیسے چین کی طرف سے امن کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی ہیں۔ ان رہنماؤں کا یہ پہلا دورہ افریقی ممالک کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے، جو روس اور یوکرین سے خوراک اور کھاد کی ترسیل پر انحصار کرتے ہیں۔

کئی ماہ کی جنگ کے بعد روس کا باخموت پر قبضہ کرنے کا دعویٰ

Ukraine Kiew | Besuch afrikanischer Präsidenten bei Wolodymyr Selenskyj
افریقی رہنماؤں کے اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 16 ماہ پرانی جنگ ختم کرنے میں مدد کرنا ہےتصویر: Valentyn Ogirenko/REUTERS

جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے جمعے کے روز بند کمرے میں ہونے والی بات چیت کے بعد یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اور دیگر چار افریقی رہنماؤں کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس میں کہا، ''یہ تنازعہ افریقہ پر منفی اثرات چھوڑ رہا ہے۔‘‘

رامافوسا اور دیگر رہنماؤں نے اس جنگ میں دونوں جانب سے دشمنی کی شدت کو تسلیم کیا لیکن اصرار کیا کہ تمام جنگوں کا خاتمہ ہونا چاہیے اور انہوں نے اس خاتمے میں تیزی لانے میں مدد کے لیے اپنی رضامندی پر بھی زور دیا۔ جنوبی افریقہ کے صدر کا کہنا تھا، ''مجھے یقین ہے کہ یوکرین کے باشندے محسوس کرتے ہیں کہ انہیں لڑنا چاہیے اور ہمت نہیں ہارنا چاہیے۔ امن کا راستہ بہت مشکل ہے۔‘‘

’چین روس کو ہوش میں لا سکتا ہے،‘ فرانسیسی صدر ماکروں پرامید

انہوں نے مزید کہا، ''اس تنازعے کو جلد از جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

اس وفد میں سینیگال کے صدر میکی سال اور زیمبیا کے صدر ہاکائندے ہیچی لیما بھی شامل ہیں اور یہ یوکرینی جنگ کے بارے میں مختلف نظریات رکھنے والے رہنماؤں کا نمائندہ وفد ہے۔

گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ماسکو کے کییف پر فوجی حملے کی مذمت میں قرارداد پیش کی گئی تو جنوبی افریقہ، سینیگال اور یوگنڈا نے اس تنازعے میں روس کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کیا تھا جبکہ مصر، زیمبیا اور جزائر کومورو نے سلامتی کونسل میں ماسکو کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

بہت سے افریقی ممالک کے ماسکو کے ساتھ طویل عرصے سے قریبی تعلقات ہیں۔ ان تعلقات کی جڑیں سرد جنگ کے دور میں سوویت یونین کی طرف سے ان ممالک کی نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی حمایت سے جڑی ہوئی ہیں۔

تاہم ان افریقی ممالک کی کوششوں کے باجود فی الحال امن مذاکرات کے امکانات معدوم ہی نظر آتے ہیں کیونکہ یوکرین اور روس دونوں ہی یکسر مختلف موقف اختیار کر رہے ہیں۔ اس افریقی امن مشن کا دورہ ایک ایسے وقت پر عمل میں آ رہا ہے، جب یوکرین نے روسی افواج کو روس کے زیر قبضہ اپنے علاقوں سے نکالنے کے لیے جوابی کارروائی کا آغاز کر رکھا ہے۔

ش ر ⁄  م م (اے پی، اے ایف پی)

یوکرینی فوج ’اربن وار فیئر مشقیں‘ کیوں کر رہی ہے؟