1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسکول کے سانحے میں بچ جانے والے بچوں کی ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت

فرید اللہ خان پشاور22 دسمبر 2014

"اس طرح کے کام کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے انکو اذیت ناک موت دینا چاہئے انکو اتنی آسان موت نہیں دینی چاہیے"۔

https://p.dw.com/p/1E8i4
تصویر: DW


ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے آرمی پبلک اسکول کے زخمی ہونیوالے باقر علی کا کہنا ہے کہ وہ اس دلخراش واقعے کو کبھی بھی نہیں بھول پائے گا۔

”اس دن ہم اسکول سے تھوڑے سے لیٹ بھی ہوئے لیکن آٹھ بجے اسکول شروع ہوا ہمارے تین پیریڈ ہوئے تھے کہ ہمیں آڈیٹوریم بلایا گیا آڈیٹوریم پہنچے تو وہاں فرسٹ ایڈ والے آئے تھے انہوں نے بتا نا شروع کیا کہ کسطرح فرسٹ ایڈ دیا جاتا ہے ابھی وہ بات کررہے تھے کہ یہ لوگ آئے اور آتے ہی فائرنگ شروع کی او ر فارسی میں کہنے لگے کہ کسی کو نہیں چھوڑنا۔ میرے پاس آکے کھڑے ہوگئے میرے سر پر جو کھڑا تھا اس نے مجھے نہیں مارا لیکن دوسرے لائن میں کھڑے ہونے والے نے مجھے گولی ماری اس سے میں بے ہوش ہوکر گر پڑا اور وہ یہ سمجھا کہ میں مر گیا تقریبا آدھے گھنٹے بعد میں اٹھا اور باہر چلا گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں فوج آنیوالی ہے انہوں نے فوج کو بلایا تقریبا دو گھنٹے بعد فوج وہا ں پہنچی میں اتنی مشکل میں تھا کہ چل نہیں سکتا تھا کیونکہ وہاں لعشیں پڑی تھیں ہمارے بوٹوں میں خون جمع ہوا تھا ۔ کچھ لوگ مجھے ایک کوریڈور سے اٹھا کر دوسرے کی جانب لئے گئے وہاں سے ایمبولینس میں ڈالا اور لیڈی ریڈنگ لے گئے مجھے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ میری امّی کی ڈیتھ ہوگئی بلکہ کہتے رہے کہ سی ایم ایچ میں پڑی ہے جب مجھے گھر لے آئے تو مجھے پتہ چلا کہ میری امّی کی ڈیتھ ہوچکی ہے ۔
باقر اب کسطرح آگے کی زندگی گذاریں گے ؟
اب ہماری نانو اورخالہ ہیں شاید اب وہ ہمارے ساتھ رہیں گی وہ ہمارا خیال رکھے گی لیکن ہم پڑھیں گے اسی اسکول میں خواہ کچھ بھی ہوجائے ہم اس اسکول کو نہیں چھوڑیں گے اوراسی سے تعلیم حاصل کرکے اپنی امّی کے خواب کو پورا کرینگے ۔


باقر ان لوگوں "حملہ آور دہشت گردوں" کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے ؟
اس طرح کے کام کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے انکو اذیت ناک موت دینا چاہئے انکو اتنی آسان موت نہیں دینی چاہیے۔ انکو نکالنا چاہیے جسطرح ضرب عضب کا آپریشن ہے اسی طرح کے آپریشن کرنے چاہیے انہوں نے معصوم بچوں کو بے دردی سے مارا انہیں جو بھی ہاتھ آتا اسکو ماردیتے۔آتے ہی انہوں نے کہا تھا کہ ماریں گے یا مریں گے ۔انہوں کسی پر بھی رحم نہیں کیا ۔
آنے والے کتنے لوگ تھے ؟
میں نے شروع میں دو بندے دیکھے تھے بعد میں بے ہوش رہا ۔
آپکا بھائی اسی اسکول میں پڑھتا تھا اور امّی بھی یہاں پڑھاتی تھیں اس واقعے سے کچھ دیرقبل بات چیت یا ملاقات ہوئی ؟
مجھے ہسپتال میں ملا تھا تب مجھے ہوش آیا تھا لیکن اسٹریچر پر تھا امّی کو صبح کے وقت دیکھا تھا آخری بار۔
بڑے ہوکر کیا بننے کا ارادہ ہے؟
بڑا ہوکر ایئر فورس میں جاؤنگا کیونکہ میری امّی کی یہ خواہش تھی کہ میں ایئر فورس میں جاؤں انکی یہ خواہش پورا کرونگا ۔
امّی کیسی ٹیچر تھی؟
میری امّی بہت اچھی ٹیچر تھیں وہ اپنے اسٹوڈنٹس کیلیے رول ماڈل تھیں ۔ جس اسٹوڈنٹ سے بھی پوچھا تعریف کرتے تھے وہ اپنے اسٹوڈنٹس کے ساتھ بہت محنت کرتی تھیں وہ کمزور اسٹوڈنٹس کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں وہ انہیں یہی کہتی تھیں کہ آپ خود کو کمزور نہ سجمھیں جسطرح دوسروں کا دماغ ہے اسی طرح آپکا بھی ہے وہ ان کمزور بچوں پر بہت زیادہ توجہ دیتی تھیں تا کہ وہ اپنے لئے بہتر مقام حاصل کرسکیں کیونکہ انکے والدین بھاری فیس ادا کرتے تھے وہ یہی کہتی تھیں کہ بچوں کا کام صرف کھیلنا نہیں انہیں کام بھی کرنا چاہئے تاکہ لوگ انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرتے رہیں ۔
باقرکیا دیگر کلاس فیلو ز کے ساتھ رابطہ ہوا اور کیا انہیں دیکھا ؟
میرے ساتھ صرف چار کلاس فیلوز تھے باقی کے ساتھ کو ئی رابطہ نہیں ہوا یہ تو اب پانچ جنوری کو جب اسکول کھُلے گا تو پتہ چلے گا کچھ اندازہ نہیں کہ کون کہاں ہے۔

Nach Anschlag auf Schule in Peshawar
پشاور آرمی پبلک اسکول کے سامنے سوگواروں کی طرف سے پھول ڈالنے کا سلسلہ جاری ہےتصویر: DW


عابد علی سید والد مجروح باقرعلی اور شوہر سعیدہ رفعت کہتے ہیں، "میرانام سید عابد علی شاہ ہے سرکاری ملازم ہوں صبح کام پر تھا کہ گیارہ بجے فون آیا کہ اسکول میں فائرنگ ہوئی ہے پتہ نہیں چلا کہ یہاں کسطرح پہنچ گیا راستے بند تھے یہاں سے پیدل آرہا تھا کہ ایک گھنٹے بعد لیڈی ریڈنگ سے میرے بیٹے باقرکے دوستوں کا فون آیا کہ بیٹا ہسپتال میں ہے زخمی ہے لیکن مجھے یقین نہیں آرہا تھا کافی گھبرایا تھا بیوی کو فون کرتا رہا لیکن انکا فون بند آرہاتھا میں نے بھائی اور رشتہ داروں کو فون کیا کہ آپ لیڈی ریڈنگ میں بچے کو سنبھالیں ۔اس دوران دیکھا کہ آرمی کے لوگ بچوں کو نکال رہے تھے میں وہاں گیا ایک گھنٹہ میں دوڑ دھوپ کرتا رہا اس دوران دوسرے بیٹے کا فون آیا کہ میں باہر نکلنے میں کامیاب ہوا بھائی کسطرح اور مما کہاں ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ باقر ہسپتال میں ہے زخمی ہے اور آپکے مما کا کچھ پتہ نہیں ۔ میں نے اسے ہسپتال بھیج دیا اور میں نے کہا کہ میں آپکے مما کو دیکھتا ہوں اس دوران میرے کزن کا فون آیا کہ آپ سی ایم ایچ پہنچ جائیں میں نے پوچھا کہ کیا ہو؟ لیکن انہوں نے کہا کہ سب ٹھیک ہے۔ اسکا "مسزکا" علاج ہورہا ہے آپ فکر نہ کریں ۔ لیکن دل نہیں مان رہا تھا اور میں جب سی ایم ایچ آیا تو مجھے بتایا گیا کہ ڈیڈ باڈی لے جائیں وہ شہید ہوگئی ہیں۔ "روتے ہوئے" ۔

Nach Anschlag auf Schule in Peshawar
حملے میں بچ جانے والا باقر علی اپنے بھائی اور والد کے ساتھتصویر: DW


اس واقعے پر آپ کیا کہیں گے ؟
اس پر کیا کہا جاسکتا ہے اس پر تو پوری دنیا غمزدہ ہے خواہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم ۔ جو کچھ بھی ہوا بہت برا کیا گیا ہے اسی واقعے پر پوری دنیا غمزدہ ہے ان لوگوں نے ان پھولوں جیسے بچوں کو بے دردی سے قتل کیا ہے انکا مقصد کیا تھا دنیا میں اسکی مثال نہیں ملتی۔
اس طرح کے واقعات میں ملوث لوگوں کے ساتھ کیا کرنا چاہئے ؟
ان کو سزا تو ملنی چاہئے اللہ کی کتا ب میں ہے کہ انہیں سزاملے گی۔ یہ سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
حکومت کو کیا کرنا چاہئے ؟
حکومت کو تو اپنی کرسی کی پرواہ ہے کہ اپنی کرسی بچائے انہوں نے کیا کرنا ہے جو کچھ بھی کرنا اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے ہمیں اللہ پر پورا یقین ہے کہ وہ ان لوگوں کو سزاضرور دے گا۔
اس سانحے کا ذمہ دار آپ کس کو ٹہرائیں گے ؟
کیا کہہ سکتے ہیں حکومت پر ڈالیں ؟ آرمی پر ڈالیں ؟ کس کی غلطی تھی یہ ۔ یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس کی غلطی تھی جو چیز اپنی آنکھوں سے دیکھی نہ ہو کسی پر الزام لگا نا بھی گناہ ہے ۔
طالبان کے بارے میں کیا رائے ہے ؟
کچھ بھی نہیٓں کہہ سکتا ان کو جو کام کچھ ٹھیک لگ رہا ہے وہ کررہے ہیں انکو یہ راستہ ٹھیک لگ رہا ہے تو کررہے ہیں ۔ ہمیں تو پتہ ہی نہیں کہ کونسا راستہ ٹھیک ہے اور کونسا غلط۔ آیا وہ غلط ہیں یا ہم غلط ہیں دونوں میں سے ایک تو غلط ہے ۔
کیا آپکی نظر میں طالبان اسکی ذمہ دار ہیں ؟
اخباروں میں آیا ہے کہ انہوں نے ذمہ داری قبول کی ہے ۔ بڑے فخر سے انہوں نے ذمہ داری قبول کی ہے ہم کیا کرسکتے ہیں اللہ کے سامنے فریاد کرسکتے ہیں کہ یا اللہ ہماری مدد کر اور اس قوم پر رحم فرما۔
روزمرہ زندگی کسطرح گذاریں گے کہ آپکی مسز بھی اس سانحے میں شہید ہوئیں ؟
سمجھ میں نہیں آتا کہ زندگی کسطرح گذاریں گے میری بیوی ہر کسی کی مدد کیا کرتی تھی۔ اسکول میں، محلے میں اور شاید یہی وجہ تھی کہ اللہ نے انہیں شہادت دی ہے۔
سطوت علی برادر باقر علی "میری والدہ انتہائی اچھی ماں کے ساتھ ایک بہترین ٹیچر تھیں ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھتی تھیں اور ہر ایک کے ساتھ برابر کا سلوک کرتی رہی والدہ کی کمی کبھی پوری نہیں کی جاسکتی ہے لیکن ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ شہید ہوگئی اب ہمیں انکی خواہش پورا کرنے کیلیے کام کرنا ہوگا انکی بڑی خواہش تھی کہ میں بڑا ہوکر ایئر فورس میں جاؤں ۔ اپنے سارے دوستوں کو اور کلاس فیلوز کو یہی پیغام دونگا کہ وہ ہمت نہ ہاریں حملہ آوروں کا یہی مقصد تھا کہ اس اسکول کو ختم کرسکیں اور اس میں پڑھنے والے بچے ختم ہوجائیں اور یہ اسکول بند ہوجائے لیکن ہم انہیں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم اسی اسکول میں پڑھیں گے دوستوں سے یہی درخواست ہے کہ وہ اسی اسکول میں آکر پڑھیں اور کسی دوسرے اسکول میں نہ جائیں ۔