1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل: فلسطینی علاقوں میں مزید یہودی بستیوں کی منظوری

18 جنوری 2021

اسرائیلی حکام نے مقبوضہ مغربی کنارے میں 780 نئے گھروں کی تعمیر کی منظوری دے دی۔ فلسطینی انتظامیہ اور یورپی یونین نے فیصلے کی مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/3o3m9
Israelische Siedlung im Westbank
تصویر: Nir Alon/Zuma/picture alliance

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر پر نظر رکھنے والے ادارے 'پیس ناؤ' کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام نے اتوار کو غرب اردن کے علاقے میں مزید مکانات کی تعمیر کے منصوبے کی منظوری دی۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجیمن نتن یاہو نے گزشتہ ہفتے ان نئی تعمیرات کا اعلان کیا تھا۔ اتوار کے روز ایک سرکاری کیمٹی نے 365 مکانات کی تعمیر کی حتمی توثیق کر دی جبکہ مزید 415  نئے مکانات کی تعمیر کے منصوبے کی ابتدائی منظوری دے دی۔

امریکی صدر ٹرمپ کا اقتدار ختم ہونے میں اب چند دن رہ گئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اسرائیل نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تیزی سے ان اقدامات کا فیصلہ کیا۔

 تعمیرات پر نظر رکھنے والے نگراں ادارے 'پیس ناؤ' کا کہنا ہے جن مکانات کی تعمیر کو منظور کیا گیا ہے ان میں نوے فیصد گھر مغربی کنارے کے کافی اندر اس جگہ پر تعمیر ہوں گے جسے  فلسطینی حکام اپنی آزاد ریاست کا اہم مرکزی حصہ بتاتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت اس سے قبل ایسے ہی غیر قانونی مقامات پر بنے 200 مکانات کو قانونی قرار دے چکی ہے۔         

امریکا کا کردار

اسرائیل نے ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں مقبوضہ علاقوں میں بستیوں کی تعمیر میں تيزی لاتے ہوئے گزشتہ برس 12 ہزار نئے مکانات کی تعمیر کی  منظوری دی تھی۔

امریکا نے 2019 میں ایسی تعمیرات کو یکطرفہ طور پر درست قرار دیا تاہم عالمی برادری کے نزدیک ایسی تمام تعمیرات نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ دو ریاستی حل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

جنہيں قسمت نے ہمسايہ بنا ديا: ايک مسلمان، ايک يہودی

امکان ہے کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹرمپ حکومت کے موقف کو بدلیں  گے اور امریکا کی اس روایتی پالیسی کو بحال کردیں گے جس کے تحت مقبوضہ علاقوں میں تعمیرات غیر قانونی تصور کی جاتی ہیں۔ تاہم اس سے نیتن یاہو اور بائیڈن حکومت کے درمیان تناؤ کا خدشہ ہے۔

پرامن حل کے لیے دھچکا

پیس ناؤ کا کہنا ہے، ''بستیاں بسانے سے نہ صرف فلسطینیوں کے ساتھ طویل المعیاد تنازعات کے خاتمے کا امکان ختم ہوجائے گا، بلکہ اس سے مختصر وقت کے لیے اسرائیل اور بائیڈن انتظامیہ کے درمیان ٹکراؤ کی بھی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔‘‘

پیس ناؤ کے مطابق ٹرمپ کے چار سالہ دور اقتدار میں اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں 27 ہزار نئے مکانات کی تعمیر کو منظوری دی جو اوباما انتظامیہ کی دوسری معیاد سے تقریبا ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے بستیاں بسانے کے ان توسیعی منصوبوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت تقریبا ساڑھے چار لاکھ یہودی فلسطینیوں کے مغربی کنارے کی زمین پرآباد ہوچکے ہیں۔ اس علاقے میں تقریبا 28 لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔

خیال ہے کہ اسرائیل میں 23 مارچ کو ہونے والے عام انتخابات کی وجہ سے بھی نتن یاہو نے نئے مکانات کی تعمیرات کی منظوری دی ہے۔ نتن یاہو کو ان انتخابات میں اپوزیشن سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔

فلسطینیوں کی طرف سے مذمت

فلسطینوں کا کہنا کہ کہ مغربی کنارے کا پورا علاقہ ان کا ہے جس پر اسرائیل نے سن 1967 کی جنگ کے بعد قبضہ کر لیا تھا۔ اس علاقے میں اسرائیلی آبادی بڑھنے کے ساتھ ہی ان کی آزاد ریاست کا خواب مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس کے ایک ترجمان نے ان تعمیرات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن مستقبل میں اگر امن مذاکرات بحال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، تو اسرائیل اسے مشکل ترین بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

یورپی یونین نے بھی اسرائیل کے نئے فیصلے پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی ہے کہ یہ عالمی قوانین کے برعکس ہے اور اس سے دو ریاستی حل کے امکانات کو مزید دھچکا لگے گا۔

 ص ز/ ش ج (اے ایف پی، اے پی)

سترہ سالہ فلسطینی لڑکی کی اسرائیلی جیل سے رہائی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں