1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستسعودی عرب

اسرائیل سے سعودی عرب براہ راست پروازیں کب تک؟

7 جولائی 2022

اسرائیل نے عازمین حج کی آسانی کے لیے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ تل ابیب سے جدہ تک براہ راست پروازوں کی اجازت فراہم کی جائے۔ اسرائیل نے سعودی فضائی حدود کو استعمال کرنے کی بھی اجازت طلب کر رکھی ہے۔

https://p.dw.com/p/4DolX
Coronavirus Israel Tel Aviv | Ben Gurion International Airport | geparkte Flieger
تصویر: Gil C. Magen/Xinhua/picture alliance

اسرائیل کے وزیر برائے علاقائی تعاون عیساوی فریج کے مطابق انہوں نے سعودی حکام سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ تل ابیب سے جدہ کے لیے براہ راست پروازوں کا آغاز کیا جائے تاکہ عازمین حج آسانی سے مکہ پہنچ سکیں۔ انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ ایسا آئندہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ سعودی عرب سے پہلے ممکن ہو سکتا ہے۔

اسرائیلی حکام نے سعودی عرب سے اس کی فضائی حدود استعمال کرنے کی بھی اجازت طلب کر رکھی ہے تاکہ اسرائیلی ایئرلائنز کم فاصلہ طے کرتے ہوئے ایشیا کے ممالک تک پہنچ سکیں۔

اسلام کی جائے پیدائش سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور ابھی تک ریاض حکومت نے اس حوالے سے کوئی بھی بیان جاری نہیں کیا۔ تاہم سیاسی ماہرین کے مطابق خطے میں ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے پس پردہ ان دونوں ممالک کے رابطے موجود ہیں۔

اسرائیل کی تقریبا اٹھارہ فیصد آبادی مسلمان اقلیت پر مشتمل ہے۔ اسی اقلیت سے تعلق رکھنے والے وزیر عیساوی فریج کا کہنا تھا، ''میں وہ دن دیکھنا چاہتا ہوں، جب میں بین گوریون (تل ابیب کے قریب ہوائی اڈا) سے جدہ روانہ ہو سکوں تاکہ میں مکہ میں اپنے مذہبی فرائض سرانجام دے سکوں۔‘‘

چھ خلیجی عرب ریاستوں میں یہودی برادریوں کا علاقائی اتحاد

اس حوالے سے مذاکرات کہاں تک پہنچے ہیں، یہ تو انہوں نے نہیں بتایا لیکن اسرائیلی آرمی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ''میں نے یہ معاملہ سعودی عرب کے ساتھ اٹھایا ہے اور مجھے اُمید ہے کہ یہ دن ضرور آئے گا۔‘‘

سعودی عرب نے ایک طویل عرصے سے اسرائیل سے آنے والے مسلمانوں کو حج کرنے کی اجازت فراہم کر رکھی ہے لیکن ان عازمین کو کسی تیسرے ممالک سے گزر کر سعودی عرب پہنچنا ہوتا ہے۔ عیساوی فریج کے مطابق اس طرح  عازمین حج کا خرچ بڑھ کر 11 ہزار پانچ سو ڈالر تک پہنچ جاتا ہے جبکہ سعودی عرب کے دیگر ہمسایہ ممالک سے آنے والے افراد کا خرچ اس سے نصف ہوتا ہے۔

جب سن 2020ء میں اسرائیل کے متحدہ عرب امارات اور بحرین سے سفارتی تعلقات قائم ہوئے تھے تو ریاض حکومت کی طرف سے ان خلیجی ریاستوں کے لیے اسرائیلی طیاروں کو سعودی فضائی راہداری فراہم کرنے کا اشارہ دیا گیا تھا۔

متحدہ عرب امارات کا بڑھتا اثر و رسوخ سعودی عرب کے لیے باعث مسرت یا پریشانی؟

لیکن ایک اسرائیلی عہدیدار کا کہنا ہے، ''ہم دبئی، ابوظہبی یا منامہ کے علاوہ دیگر مقامات کے لیے عمومی (سعودی) اوور فلائٹ حقوق حاصل کرنے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اس سے ایشیائی مقامات تک پہنچنے کے لیے اہم وقت بچ جائے گا۔‘‘

ا ا / ب ج (روئٹرز)