1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل ایک اور سیاسی تعطل کی جانب رواں

24 مارچ 2021

ابتدائی ایگزٹ پولز کے نتائج کی بنیاد پر نیتن یاہو نے انتخابات میں اپنی لیکود پارٹی کی 'بڑی کامیابی‘ کا دعوی کیا ہے۔ تاہم اسے غالبا ً اکثریت نہیں مل سکے گی اور ملک ایک اور سیاسی تعطل کی جانب بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3r1xI
Israel I Wahlsieg Benjamin Netanjahu Likud Partei
تصویر: Ammar Awad/REUTERS

اسرائیل میں دو سال سے بھی کم عرصے میں منگل کے روز ہونے والے چوتھے انتخابات کے بعد وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا سیاسی مستقبل ابھی غیر واضح ہے۔

اسرائیل کے تین سرکردہ نشریاتی اداروں کے ابتدائی ایگزٹ پولز کے مطابق نیتن یاہو کی دائیں بازو کی لیکود پارٹی کو پارلیمان میں 31 سے 33 تک سیٹیں ملنے کی توقع ہے۔ دوسری طرف ان کے حریف یائر لییڈ کی جماعت یش اتید کو 16سے 18سیٹوں پر جیت مل سکتی ہے۔ تاہم تازہ ترین ایگزٹ پولز کے مطابق نیتن یاہو حامی اور نیتن یاہو مخالف دونوں کیمپوں کو تقریباً برابر برابر تعداد میں سیٹیں ملنے کی توقع ہے اور دونوں میں سے کسی کو بھی اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔

دونوں گروپ مذہبی قوم پرست رہنما نفتالی بینٹ کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ نفتالی ماضی میں نیتن یاہو کے حلیف رہ چکے ہیں لیکن فی الحال وزیر اعظم کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ ہیں اور انہوں نے نیتن یاہومخالف گروپ میں شامل ہونے کو مسترد نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کو مخلوط حکومت بنانے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

حتمی نتائج اس ہفتے کے اواخر تک متوقع ہیں۔ 120 رکنی پارلیمان میں اکثریت کے لیے کم ا ز کم 61 سیٹوں کی ضرورت ہوگی اور حکومت سازی میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ اگر اس کے باوجود تعطل برقرار رہتا ہے اور اتحادی حکومت قائم نہیں ہو پاتی ہے تو اسرائیل میں ایک اور انتخاب ضروری ہوجائے گا اور مسلسل پانچ انتخابات اس بری طرح منقسم ملک کے لیے ایک غیر معمولی بات ہوگی۔

 نیتن یاہو دعوے سے پیچھے ہٹ گئے

نتن یاہو نے انتخابات کے ابتدائی ایگزٹ پولز کے نتائج کو اپنی جماعت لیکود کے لیے 'بڑی جیت‘ قرار دیا تھا۔

انہوں نے فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنے بیانات میں کہا ”ووٹروں نے میری قیادت میں دائیں بازو اور لیکود پارٹی کو بڑی کامیابی سے ہمکنار کرایا ہے۔"

تاہم بعد میں اپنی تقریروں میں انہوں کامیابی کے دعوے نہیں دہرائے۔ انہوں نے بظاہر بینٹ سے حمایت حاصل کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے کہا”میں تمام منتخب رہنماوں سے رجوع کروں گا جو ہمارے اصولوں کو پسند کرتے ہیں۔ میں کسی کو مستشنی نہیں کروں گا۔"

USA I Benjamin Netanyahu, Donald Trump, Abdullah bin Zayed Al-Nahyan
عرب ملکوں کے ساتھ سفارتی معاہدوں کے بعد نیتن یاہو خود کو ایک عالمی مدبر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تصویر: Saul Loeb/AFP

اپوزیشن کا دعوی

اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ نے بھی اپنی اکثریتی حکومت قائم کرنے کا دعوی کیا ہے۔ توقع ہے کہ یش ایتید نیتن یاہو کی جماعت لیکود کے بعد دوسرے نمبر پر رہے گی۔

سابق ٹی وی اینکر یائر لیپڈ نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا”اس وقت نتین یاہو کے پاس (حکومت سازی کے لیے مطلوبہ) 61 سیٹیں نہیں ہیں۔"  یائر لیپڈ نے مزید کہا کہ انہوں نے ”پارٹی رہنماوں کے ساتھ صلاح و مشورہ شروع کر دیا ہے اور ہم نتائج کا انتظار کریں گے لیکن ہم اسرائیل میں ایک بہتر حکومت کے قیام کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔“

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بینیٹ اپنی ممکنہ سات نشستوں کے ساتھ نیتن یاہو کی حکومت کے لیے حمایت بھی کر دیں تو بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ دونوں رہنماؤں میں اتحاد قائم ہوجائے۔

دونوں رہنما ایک بار قریبی اتحادی تھے اور دونوں ہی سخت گیر اور جارحانہ نظریات کے حامل ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان کے تعلقات میں تناؤ بڑھا ہے۔

مذہبی قوم پرست بینیٹ نے ایک ریلی میں حامیوں سے کہا'آپ نے جو طاقت مجھے دی ہے میں اسے صرف ایک رہنما اصول کے مطابق استعمال کروں گا اور وہ یہ کہ اسرائیل کے لیے کیا اچھا ہے۔‘

Israel | Anti-Regierungsdemonstration in Jerusalem
تصویر: Tania Kraemer/DW

نیتن یاہو سے عوامی ناراضگی کا سبب

نیتن یاہو پہلے اسرائیلی وزیر اعظم ہیں جن پر بدعنوانی کے الزامات کے باضابطہ الزامات عائد ہونے کے بعد ان پر فرد جرم عائد کی جائے گی تاہم وہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

سن 2020 میں عرب ملکوں کے ساتھ چار سفارتی معاہدوں کے بعد نیتن یاہو خود کو ایک عالمی مدبر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ معاہدے ان کے قریبی اتحادی اور دوست سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کے نتیجے میں ہوئے تھے۔

 سیاسی تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ اسرائیل میں سب سے زیادہ مدت تک وزارت عظمی پر فائز رہنے والے نیتن یاہو کو ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بجٹ خسارے کی وجہ سے عوامی ناراضگی کا سامنا ہے۔

 ج ا/ ص ز (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز، اے ایف پی)