اسرائیلی حکم پر خان یونس سے بڑی تعداد میں شہریوں کا انخلا
11 اگست 2024اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عسکریت پسندوں کے خلاف نئے آپریشن سے قبل انخلا کے تازہ احکامات جاری کیے جانے کے بعد اتوار کے روز غزہ کے سینکڑوں باشندے خان یونس کے شمالی محلوں سے پناہ کی تلاش میں دیگر علاقوں کی طرف روانہ ہو گئے۔
اسرائیلی فوج نے اتوار کو علی الصبح فضا سے گرائے گئے انتباہی پمفلٹس اور موبائل فون پیغامات کے ذریعے مکینوں کو خان یونس کے الجالہ نامی علاقے سے نکل جانے کے لیے کہا تھا۔ یہ ایسا علاقہ ہے جسے اسرائیل نے پہلے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ایک محفوظ علاقہ قرار دے رکھا تھا۔
اسرائیلی فوج نے خبردار کیا ہے کہ الجالہ ایک ’’خطرناک جنگی علاقہ‘‘ بن جائے گا۔ اس اعلان کے نتیجے میں غزہ کی جنگ کے دوران پہلے ہی متعدد مرتبہ بے گھر ہونے والے فلسطینی ایک بار پھر اپنے لیے پناہ گاہوں کی تلاش میں نکلنے پر مجبور کر ہو گئے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق تازہ میزائل حملوں اور لڑائی کے خوف سے بہت سے خاندانوں نے اپنا بہت معمولی سا سامان اکٹھا کیا اور پھر یہ علاقہ چھوڑ دیا۔ اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا، "آئی ڈی ایف (اسرائیلی دفاعی افواج) علاقے میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے والی ہے اور اس لیے وہ الجالہ کے پڑوس میں رہ جانے والی بقیہ آبادی سے عارضی طور پر وہاں سے نکل جانے کا مطالبہ کرتی ہے۔‘‘
خان یونس کی آبادی پہلے ہی متعدد بار اسرائیلی افواج کی جانب سے انخلا کے احکامات کی زد میں آ چکی ہے اور وہاں کئی مہینوں سے جاری اسرائیلی بمباری نے رہائشی بلاکس کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ فلسطینی مہاجرین اور پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے UNRWA کے سربراہ فیلیپے لازارینی کا کہنا ہے، ’’گزشتہ چند دنوں کے دوران جنوب مغربی غزہ میں 75,000 سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔‘‘
لازارینی نے کہا کہ انخلا کے نئے احکامات نے اتوار کی صبح سے ہی بہت سے لوگوں کو وہاں سے اپنی جانیں بچا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے کہا، ’’کچھ لوگ صرف اپنے بچوں کو ہی اپنے ساتھ لے جانے کے قابل ہوتے ہیں، اور کچھ تو اپنی پوری زندگی کسی چھوٹے سے تھیلے میں باندھ کے نکل پڑتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’غزہ کے لوگ پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘ مقامی رہائشیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ اسرائیلی فوج نے اتوار کو خان یونس میں ایک نیا حملہ کر بھی دیا، جس میں زخمی ہونے والے متعدد افراد کو علاج کے لیے ایک مقامی ہسپتال پہنچا دیا گیا۔
اسرائیلی فوج کا یہ تازہ حکم ہفتے کو وسطی غزہ میں ایک اسکول میں قائم ایک عارضی پناہ گاہ پرفضائی حملے میں کم از کم 80 فلسطینیوں کی ہلاکت اور 50 کے زخمی ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس نے تبین نامی اسکول کی عمارت میں قائم عسکریت پسند تنظیم حماس کی ایک کمانڈ پوسٹ کو نشانہ بنایا تھا، جس میں کم از کم 19 جنگجو مارے گئے۔
اسرائیلی فوج گزشتہ دس ماہ سے جاری جنگ کے دوران بارہا بڑے پیمانے پر غزہ کے مختلف علاقوں کے رہائشیوں کو انخلاء کا حکم دیتی آئی ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے ان علاقوں کو پہلے حماس سے خالی کرا لیا گیا تھا لیکن اب اس کےجنگجو وہاں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔
’کوئی جگہ محفوظ نہیں‘
غزہ کی 2.3 ملین کی آبادی کی اکثریت اس جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو چکی ہے، اور اس میں سے بھی زیادہ تر کو کئی بار بے گھر ہونا پڑا ہے۔ لاکھوں شہری عارضی خیموں اور اس طرح کے اسکولوں کی عمارتوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جیسے اسکول کو ہفتے کے روز اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ ان فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی محصور ساحلی پٹی میں کہیں بھی خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔
اسرائیل فوج کی جانب سے انخلا کے تازہ ترین احکامات خان یونس کے جن علاقوں پر لاگو ہوتے ہیں، ان میں اسرائیل کے انسانی ہمدری کی بنیادوں پر اعلان کردہ 'محفوظ علاقے‘ بھی شامل ہیں۔ اسرئیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس علاقے سے راکٹ فائر کیے گئے تھے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس اور دیگر تنظیموں کے عسکریت پسند عام شہریوں کے درمیان چھپے ہوئے ہیں اور رہائشی علاقوں سے حملے کر رہے ہیں۔ غزہ کا دوسرا سب سے بڑا شہر خان یونس اس سال کے شروع میں ایک بڑے اور طویل فضائی اور زمینی حملے کے دوران بڑے پیمانے پر تباہی کا شکار ہوا تھا۔
پچھلے ہفتے اس شہر سے اسرئیلی فوج کی جانب سے انخلا کے پہلے حکم کے بعد دسیوں ہزار افراد کو دوبارہ اپنے علاقے خالی کر کے بھاگنا پڑا۔ پناہ کی تلاش میں وہاں سے بھاگنے والی تین بچوں کی بیوہ ماں امل ابو یحییٰ نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ اب کہاں جانا ہے۔ اس 42 سالہ خاتون کا شوہر مارچ میں ان کے پڑوسیوں کے گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں مارا گیا تھا۔ امل جون میں اپنے بری طرح تباہ شدہ گھر واپس لوٹی تھیں لیکن اب ایک بار پھر جان بچانے کے لیے انہیں بھاگنا پڑا۔ انہوں نے کہا، ''یہ میری چوتھی نقل مکانی ہے۔‘‘
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر سے جاری غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 40,000 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ امدادی گروپ علاقے میں خوفناک انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جب کہ بین الاقوامی ماہرین نے وہاں قحط سے بھی خبردار کیا ہے۔ اس جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو اس وقت ہوا تھا۔ جب حماس کے جنوبی اسرائیل کے سرحدی علاقوں پر حملے میں تقریباً 1,200 افراد مارے گئے تھے، جن میں زیادہ سے تر عام شہری تھے۔ تب حماس کے جنگجو واپسی پر تقریباً 250 افراد کو اغوا کر کے اپنے ہمراہ غزہ بھی لے گئے تھے۔
ش ر⁄ ر ب، م م (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)