1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی انتخابات پر عرب دنیا کا ردعمل

امجد علی12 فروری 2009

اسرائیل میں انتخابی عمل مکمل ہو چکا ہے لیکن عرب دُنیا کو اِس بات سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے کہ نتن یاہو یا زیپی لونی میں سے کون اسرائیل کا آئندہ وزیر اعظم ہو گا۔ عمان سے کارسٹن کیوہن ٹَوپ کا بھیجا ہوا جائزہ

https://p.dw.com/p/GseT
اسرائیلی انتخابات کوعرب دنیا خطے میں قیام امن کو کوششوں کے حوالے سے ملے جلے تاثرات کے لحاظ سے دیکھ رہی ہےتصویر: AP Graphics

اِن انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے عرب دنیا کے اخبارات و جرائد کے تبصرہ نگاروں نے زیادہ تر اسرائیل کے ساتھ درپیش بنیادی نوعیت کے مسائل کا ہی ذکر کیا ہے اور قیام امن کے سلسلے میں اُن کی توقعات بہت زیادہ نہیں ہیں۔

اسرائیلی انتخابات پر زیادہ سرگرم انداز میں کیا گیا تبصرہ آج صرف مصری اخبار ’’الاہرام‘‘ کا تھا: اخبار نے لکھا: ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا معاشرہ، جو امن کے لئے کوشاں ہو، لِیبرمان جیسے فاشسٹ کو اتنے بڑے پیمانے پر تائید و حمایت سے نوازے۔‘‘

اِس ایک اخبار کو چھوڑ کر باقی سبھی اخبارات میں اسرائیل کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج پر تبصرے عدم دلچسپی اور بے بسی کے ملے جلے تاثرات لئے ہوئے ہیں۔ اِن تبصرہ نگاروں کے خیال میں بڑی اسرائیلی جماعتوں کے درمیان فرق ویسے بھی بہت کم ہے اور اِس سلسلے میں اِس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ غزہ پٹی کے خلاف جنگ ایک ایسے وزیر دفاع کی قیادت میں لڑی گئی، جو خود کو بائیں بازو کی جماعت قرار دینے والی لیبر پارٹی کے سربراہ ہیں۔ اخبار ’’الحیات‘‘ سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی باریہ علام الدین کہتی ہیں کہ نتن یاہو وزیر اعظم بنیں یا زیپی لونی، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا: ’’حکومت کون تشکیل دے گا، اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیلی سیاست جا کس طرف رہی ہے۔ یہ انتہائی دائیں بازو کی جانب جا رہی ہے۔ اِس کا مطلب ہو گا، اسرائیل میں اور زیادہ انتہا پسندی اور پہلے سے زیادہ بنیاد پرستی۔ اور ظاہر ہے آگے سے فریق بھی اِسی طرح کے رد عمل کا مظاہرہ کرے گا۔ یہاں وہاں دونوں جگہ انتہا پسندی بڑھ رہی ہے اور صرف اِس لئے کہ ہم حالتِ امن میں نہیں ہیں۔‘‘

اردن کے اخبار ’’الرائے‘‘ کے خیال میں فلسطینیوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ تشدد کے ذریعے اسرائیلیوں کو نہ تو سلامتی ملے گی اور نہ ہی امن۔ اسرائیل کو یہ دیکھنا ہو گا کہ فلسطینیوں کو ہلاک کرنے کی حکمتِ عملی سے حالات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ اخبار مزید لکھتا ہے: ’’ ابھی بھی امن اور دو ریاستوں کے حل کے امکانات موجود ہیں۔ اب یہ اسرائیل پر منحصر ہے کہ وہ امن کی منطق کو سمجھے یا پھر بدستور تکبرانہ انداز میں اقدامات کرتا رہے۔‘‘

خاتون صحافی دلال البِصری اپنے کالم میں لکھتی ہیں کہ اسرائیل ایک سنگین بحران سے دوچار ہے۔ اِسرائیل کے عملی اقدامات اِسے امن کی منزل سے دور لے کرجا رہے ہیں۔ امن کی کوئی امید نہ ہونے کی وجہ سے اسرائیلی ایک شیطانی چکر میں قید ہیں، جہاں تشدد مزید تشدد کو جنم دیتا ہے۔ تاہم البِصری کے مطابق عرب بھی اِسی صورتحال کا شکار ہیں۔ وہ لکھتی ہیں: ’’جتنا زیادہ ہم جنگ کریں گے، اُتنا ہی زیادہ ہم اپنے معاملات انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں دے دیں گے، جو پھر ہمارے سیاسی تصورات کی تشریح کرنے کا کام سرانجام دیں گے۔‘‘

بنجمن نتن یاہو کا 90 کے عشرے میں سربراہِ حکومت کے طور پر پہلا دور عرب دنیا ابھی تک بھلا نہیں پائی۔ وہ اُسے ایک ایسی شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں، جس نے جان بوجھ کر امن عمل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔ چنانچہ عرب دُنیا کے لئے اہم بات یہ نہیں کہ کونسی شخصیت اسرائیل میں سربراہِ حکومت بنے گی بلکہ یہ کہ وہ شخصیت پالیسیاں کس طرح کی اپنائے گی۔

سن 2002ء میں عرب ممالک نے ایک امن منصوبہ پیش کیا تھا، جس میں اسرائیل اور عرب دُنیا کے درمیان اِس شرط پر قیامِ امن کا ذکر کیا گیا تھا کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں سے واپس چلا جائے، فلسطینیوں کے ساتھ دو ریاستوں کے حل پر راضی ہو جائے اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے کوئی منصفانہ حل تلاش کیا جائے۔ عرب دُنیا اسرائیل کی جانب سے اب تک اِس منصوبے پر کسی رد عمل کی منتظر ہے لیکن آیا اسرائیل اِس منصوبے کو قبول کر لے گا، عرب دُنیا میں اس حوالے سے اُمید نہ ہونے کے برابر ہے۔