1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئرش سینیٹ میں اسرائیلی مصنوعات پر پابندی کی حمایت

12 جولائی 2018

آئرش سینیٹ نے اس قانون کی حمایت کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جس کے تحت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تیار شدہ اسرائیلی مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ اسرائیل نے اس اقدام کی مخالفت جبکہ فلسطینیوں نے تعریف کی ہے۔

https://p.dw.com/p/31JZe
Israel Markt
تصویر: picture-alliance/landov

اسرائیل کی جانب سے اس تجویز پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’’عوامیت پسندانہ، خطرناک اور انتہا پسندانہ اقدام‘‘ قرار دیا گیا ہے جبکہ فلسطینی رہنماؤں اور تنظیم آزادی فلسطین نے اسے ایک ’’مثبت اقدام‘‘ کہا ہے۔ یہ مجوزہ قانون آئرلینڈ کی ایک آزاد سینیٹر کی طرف سے پیش کیا گیا تھا جبکہ برسر اقتدار جماعت ’ایف جی پی‘ کے علاوہ ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔

آئرش حکومت کا کہنا تھا کہ اس طرح کا کوئی بھی قدم اٹھانے سے یورپی یونین کے اندر تجارتی رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی جبکہ اس خطے میں آئرلیند کے اثر و رسوخ کو بھی نقصان پہنچے گا۔ آئرش حکومت کا یہ بھی کہنا تھا کہ قبل ازیں یورپی یونین کے کسی بھی رکن ملک نے انفرادی سطح پر ایسا کوئی اقدام نہیں کیا۔

Israelische Produkte in Gaza
تصویر: picture alliance/landov/Amra

ڈبلن کی سنیٹ میں یہ تجویز پیش کرنے سے پہلے اس حوالے سے شدید  بحث بھی ہوئی لیکن ’کنٹرول آف اکانومک ایکٹیویٹی‘ نامی اس تجویز کی بیس کے مقابلے میں پچیس ووٹوں سے حمایت کی گئی۔ اب قانون سازی کے لیے اسے سینیٹ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا جبکہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ وہ اسے قانون کا درجہ حاصل نہ ہونے دے۔

آئرش گاؤں کے تاجروں کی طرف سے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ

یہ بل پیش کرنے والی سینیٹر فرانسس بلیک کا کہنا تھا، ’’شاید ابھی ہمیں طویل راستہ طے کرنا پڑے لیکن میرے خیال میں ہم نے اس کیس کو سب پر واضح کر دیا ہے۔‘‘ اس خاتون اور موسیقار سینیٹر کا کہنا تھا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آبادی کاری ’جنگی جرم‘ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’آئرلینڈ ہمیشہ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور انصاف کے ساتھ کھڑا رہے گا۔‘‘

دوسری جانب آئرلینڈ کے وزیر خارجہ سائمن کووینی نے مشرق وسطیٰ میں ’جلتی کو ہوا دینے‘ کے خلاف خبردار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں سینیٹ اور اس کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔‘‘

اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق اس اقدام کا مشرق وسطیٰ کے لیے سفارتی عمل پر منفی اثر پڑے گا۔ دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔

ا ا / م م ( اے ایف پی، اے پی)