یکطرفہ فائربندی کےبعد بھی غزہ میں امن کی صورتحال خراب
18 جنوری 2009اسرائیل حماس جنگ کے ٹھیک تین ہفتے بعد یکطرفہ فائر بندی کے اعلان کے باوجود فائر بندی کے صورتحال میں پائیداری نظر نہیں آ رہی۔ اتوارکو حماس کے قاسم راکٹوں کے جواب میں اسرائیلی جنگی ہیلی کوپٹروں کی مدد سے ہونے والی ہیوی مشین گن فائرنگ کی آواز سے شہر بیت لاحیا گونج رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ہی غزہ پٹی پر اسرائیلی فضائی حملے شروع ہوگئے۔
اسرائیل کے لئے گزشتہ تین ہفتے نہایت کامیاب رہے۔ جیسا کہ اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا: ’’حماس کو بری طرح سے شکست ہوئی ہے۔ اس کی فوجی کے ساتھ ساتھ اس کے علاقوں کے بنیادی ڈھانچہ کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔ حماس کے لیڈران چھپے پھر رہے ہیں اور ان کے حامی فلسطینی باشندے مارے گئے ہیں۔ حماس کی راکٹ ساز فیکٹزیاں تباہ ہوگئی ہیں اور انکے فوجی ٹھکانے اسرائیلی آرمی کے کنٹرول میں ہیں۔‘‘
اسرائیلی عوامی رائے: اسرائیل کے ان دعوؤں کے باوجود غزہ کی جنگ کے مقاصد کے حصول میں اسرائیل کی کا میابی رائے عامہ کے لئے ایک کھلا سوال ہے۔ اسرائیلی فوج کا ایک سپاہی جیلاد شالت اب بھی حماس کی قید میں ہے۔ ڈھائی سال قبل غزہ کے سرحدی علاقے سے ایک فلسطینی عسکریت پسند گروپ نے اسے اغوا کر کہ غزہ پہنچا دیا تھا ۔ گزشتہ شب اس کے والدین نے ایک پریس کانفرنس میں اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے بیٹے کی رہائی کو غزہ میں فائربندی کی اولین شرط کے طور پر رکھا جائے۔
جیلاد شالد کے والد نوام شالد نے کہا:’’یہ ایک نازک وقت ہے جس میں میرے بیٹے جیلاد کو حماس کے قبضے سے چھڑوایا جا سکتا ہے۔ ایسا کیونکر ممکن ہے کہ اسرائیلی فوج فائربندی کے بعد میرے بیٹے جیلاد کے بغیر لوٹے۔‘‘
مستقل امن :حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے فائربندی کا فیصلہ حماس کے ساتھ کسی ساز باز کے بعد نہیں کیا بلکہ اسرائیلی حکومت نے امریکہ اور مصر کے ساتھ مذاکرات میں اس امر کی یقین دہانی چاہی کہ عسکریت پسند تنظیم حماس آئندہ مسلحہ نہیں ہوگی اور اور غزہ پٹی سے اسلحے کی اسمگلنگ بند ہو جائے گی۔
ان امور پر تفصیلی بات چیت آج شرم الشیخ میں ہو رہی ہے جہاں مصری صدر حسنی مبارک کے ایماء پر ایک ہنگامی اجلاس کا انعقاد ہو رہا ہے۔ جس میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل، یرطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن، اطالوی وزیر اعظم سلوییو بارلسکونی اور فرانسیسی صدر نیکولا سارکوزی اور حسنی مبارک سمیت فلسطینی صدر محمود عباس اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون بھی ملاقات کریں گے۔ اس اجلاس میں یورپی یونین کے موجودہ صدر ملک چک ریپبلک، اسپین اور ترکی کے حکومتی سربراہان بھی حصہ لے رہے ہیں۔ اس کے بعد آج سہ پہر میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل تل ابیب جائیں گی جہاں اسرائیلی سیاستدانوں کے ساتھ ان کے مذاکرات متوقع ہیں۔