1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں ہم جنس پرست جوڑوں کے لیے ’سول یونین‘ حقوق

عاطف بلوچ23 دسمبر 2015

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یونان میں ہم جنس پرستوں کو ’سول یونین‘ حقوق دیے جانے کو ایک تاریخی پیشرفت قرار دیا ہے۔ دوسری طرف قدامت پسندوں کی طرف سے اس قانون پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HSBr
Griechenland Parlament billigt Lebenspartnerschaft für Homosexuelle
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/N. Georgiou

یونان میں بدھ تئیس دسمبر کو ہم جنس پرستوں کے معاشرتی حقوق کے حوالے سے ایک نیا قانون منظور کر لیا گیا ہے، جس سے جنسی طور پر مختلف رحجانات و میلانات رکھنے والے افراد کو متعدد شہری حقوق میسر آ سکیں گے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ یونان کی پارلیمنٹ میں ’سول یونین‘ کے حوالے سے ایک نیا قانون منظور کر لیا گیا ہے۔ اس قانون کے باعث ہم جنس پرست جوڑوں کو قانونی تحفظ مل جائے گا۔ آرتھوڈوکس چرچ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اس یورپی ملک میں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دینے پر سخت تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔

اس نئے قانون کے تحت ہم جنس پرست جوڑوں کو جائیداد اور ورثے کے حقوق دیے گئے ہیں لیکن اس میں مختلف جنسی رحجانات رکھنے والے افراد LGBT کے لیے بچے گود لینے کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔ یونانی وزیر اعظم الیکسس سپراس نے اس پیشرفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی پیشرفت ہے، ’’یونان میں انسانی حقوق کے حوالے سے آج کا دن انتہائی اہم ہے۔‘‘

ایک اہم پیشرفت

یونان میں ہم جنس پرست افراد کے خلاف امتیازی رویوں کی وجہ سے سن 2013ء میں یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے ایتھنز حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ سپراس کا کہنا ہے کہ اس موقع پر خوشی منانے کے بجائے ماضی میں ہم جنس پرستوں کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات پر معافی مانگی جانا چاہیے۔ یونانی پارلیمنٹ میں اس قانون کے حق میں 193 ووٹ ڈالے گئے جبکہ 249 نشستوں والے ایوان میں 56 ممبران نے اس قانون کے خلاف آواز بلند کی۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یونان میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کے اس عمل کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا ہے۔ تاہم اس ادارے نے یہ بھی کہا ہے کہ یونانی معاشرے میں ہم جنس پرستوں اور دیگر جنسی میلانات رکھنے والے افراد LGBT کو ابھی تک امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ایمنسٹی نے زور دیا ہے کہ معاشرتی سطح پر اس تبدیلی کے لیے ایتھنز حکومت کو مزید محنت کرنا ہو گی۔

ایمنسٹی کی یورپ اور وسطی ایشیا کے لیے نائب سربراہ گاؤری فان گولِک نے کہا ہے کہ یونان میں اس تاریخی قدم کے باوجود معاشرتی سطح پر پائے جانے والے تعصبات کو ختم کرنا ضروری ہے، ’’ ہم جنس پرستوں پر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ان افراد کے خلاف نفرت انگیز بیانات عام ہیں، جو حکام کی طرف سے نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ملکی میڈیا میں بھی غیر محسوس طریقے سے ایسے افراد کے خلاف پروپیگنڈا جاری ہے۔

Belgien EU Gipfel in Brüssel - Alexis Tsipras
یونانی وزیر اعظم الیکسس سپراس نے اس پیشرفت کوایک تاریخی پیشرفت ہےتصویر: Reuters/F. Lenoir

ستائش بھی تنقید بھی

بدھ کے دن پارلیمان میں اس قانون کے حوالے سے بحث جاری تھی تو ہم جنس پرستوں اور ان کے حامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ایتھنز میں واقع پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر مظاہرہ بھی کیا۔ ان مظاہرین نے LGBT افراد کے حق میں نعرے بازی کی اور انہوں نے متعدد بینر بھی اٹھا رکھے تھے۔ ایک بینر پر لکھا تھا، ’محبت کوئی گناہ نہیں ہے‘۔

دوسری طرف یونان میں چرچ کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستی ’درست عمل‘ نہیں ہے اور اس کو قانونی حیثیت نہیں دی جانا چاہیے۔ گزشتہ ہفتے ہی ایک سرکردہ بشپ نے ہم جنس پرستی کو ’گناہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ملعون‘ ہم جنس پرستوں پر ’تھوکا جانا‘ چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید