یونان میں مظاہروں کے چھٹے روز بھی پرتشدد واقعات
11 دسمبر 2008پولیس کے مطابق ایتھنز میں مختلف مقامات پر احتجاج کے لیے جمع نوجوانوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے۔
یونان کو ان ہنگاموں کی وجہ سے مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ اندرون و بیرون ملک بیشتر پروازیں منسوخ ہیں جبکہ بینک، اسکول اور بعض ہسپتال بھی بند پڑے ہیں اور وزیر اعظم Costas Karamanlis نے ہنگاموں سے متاثر ہونے والوں کو معاوضہ ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا:"ہم سب کو ایک مشترکہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے تشدد، توڑپھوڑ اور لوٹ مار کی مذمت کرنا ہوگی اور انتہاپسند عناصر کو الگ تھلگ اور تنہا کر دینے کے لئے یہ طرز عمل ہماری ذمے داری بھی ہے۔"
دوسری جانب پولس کے مطابق یونانی پارلیمنٹ کے باہر ہنگامہ آرائی کے دوران ایک خاتون سمیت دو افراد زخمی بھی ہوگئے۔ مظاہرین وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ملک کے شمالی شہر Salonika میں بھی ایسے ہی واقعات میں 80 سے زائد دکانوں اور 14 بینکوں کو نقصان پہنچا۔ اُدھر ضلع Exarchia میں تقریبا 40 نوجوان یونیورسٹی کے باہر جمع ہوئے جہاں انہوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ ان مظاہروں کے بارے میں یونان کی ایک طالبہ کا کہنا تھا:"میری رائے یہ ہے کہ اگر کسی کی جان و مال کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا تو یہ مظاہرے جائز ہیں۔"
دریں اثنا 15 سالہ لڑکے کی ہلاکت میں ملوث دو پولیس اہکاروں کے خلاف چارج شیٹ جاری کر دی گئی ہے جس کے مطابق ایک پولیس اہلکار Epaminondas Korkoneas نے گزشتہ ہفتے کے روز Exarchia میں تقریبا 30 نوجوانوں سے جھڑپوں کے دوران ایک جواں سالہ لڑکے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ مذکورہ پولیس افسر نے تفتیش کے دوران بتایا کہ اس نے اپنے دفاع میں اس وقت گولی چلائی جب نوجوانوں کے گروپ نے سپاہیوں ان پر دھاوا بول دیا تھا اور انہیں قتل کرنے کے نعرے لگا رہے تھے۔
یونان کی سوشلٹ پارٹی کے رہنما George Papandreou نے ملک میں ہنگاموں پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت عوام کا اعتماد کھو چکی ہے اور اسے مستعفی ہو جانا چاہئے۔
پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق گولی لڑکے کو براہ راست نہیں لگی بلکہ پہلے کسی سخت سطح سے ٹکرائی۔ غیرجانبدار ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ گولی پہلے کسی سخت سطح سے ٹکرائی اور پھر لڑکے کو لگی۔
دوسری جانب ترکی، اٹلی، روس اور اسپین میں بھی یونان کے سفارت خانوں کے باہر مظاہرے ہوئے ہیں جبکہ اس صورت حال کے باوجود یونانی وزیر اعظم جمعرات کے روز بیلجیئم کے شہر برسلز میں شروع ہونے والے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شریک ہیں۔