'یونانی دیوی‘ کا مجسمہ بنگلہ دیشی سپریم کورٹ میں دوبارہ نصب
28 مئی 2017ہاتھ میں انصاف کا ترازو اٹھائے ساڑھی میں ملبوس ایک خاتون کے اس مجسمے کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کے خارجی حصے میں نصب ہوئے ابھی چھ ماہ سے بھی کم کا عرصہ ہوا تھا کہ بروز جمعہ چھبیس مئی کو مذہبی جماعتوں کے مسلسل مظاہروں اور دباؤ کے باعث اسے ہٹا دیا گیا۔ ان مظاہرین کا موقف تھا کہ یہ مجسمہ انصاف کی یونانی دیوی سے مماثلت رکھتا ہے اور اسے نصب کرنا غیر اسلامی ہے۔
تاہم مجسمے کے ہٹائے جانے کے بعد ملک میں سیکولر نظریات رکھنے والے گروپوں نے احتجاجی مظاہرے کیے، جو پولیس اور مظاہرین کے درمیان پرتشدد جھڑپوں پر منتج ہوئے۔
سیکولر سوچ کے حامی ان مظاہرین کا ماننا تھا کہ مجسمے کا ہٹائے جانا اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ ملک میں اسلامی شدت پسندی کو رواج دیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش سرکاری طور پر ایک سیکولر ملک ہے۔
مجسمہ ساز مرنال الحق نے بتایا کہ اس بار انتظامیہ نے اسے یہ مجسمہ عدالت عالیہ میں ہی، لیکن ایک دوسری جگہ نصب کرنے کو کہا ہے۔ حق نے مزید کہا کہ نیا مقام عدالت کی عمارت کے عقب میں ہے جہاں سے کوئی اسے بمشکل ہی دیکھ پائے گا۔
مذہبی جماعتوں کا کئی ماہ سے حکومت سے مطالبہ تھا کہ مجسمے کو ہٹا کر اس کی جگہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو رکھ دیا جائے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے اس معاملے سے خود کو الگ رکھا ہے تاہم گزشتہ ماہ چند اہم مذہبی رہنماؤں سے اپنی رہائش گاہ پر بات کرتے ہوئے اُنہوں نے مجسمے کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا تھا۔
بنگلہ دیش میں ایک مذہبی جماعت’ حفاظتِ اسلام ‘ کے ایک سینیئر رہنما مفتی فیض اللہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے آج مجسمہ دوبارہ نصب کیے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ،’’اسے فوری طور پر ہٹا دیا جانا چاہیے ورنہ ہم اس کے خلاف تحریک چلائیں گے۔‘‘
بنگلہ دیش میں حالیہ برسوں میں سیکولر نظریات کے حامی افراد اور سخت گیر مذہبی رحجانات رکھنے والوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے لادین بلاگرز، غیر ملکیوں اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کو قتل کرنے کے بھی کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔