UA/200608
20 جون 2008یورپی یونین کی اِس سربراہ کانفرنس سے سامنے آنے والے واضح پیغام کو ایک جملے میں سمویا جائے تو وہ کچھ یوں ہو گا کہ یورپی قائدین کو چونکہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کیا کریں، اِس لئے اُنہوں نے معاملے کو آئندہ پر اُٹھا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اِس پیغام سے یورپ کی سیاسی قیادت پر شہریوں اور خاص طور پر آئرلینڈ کے مایوس عوام کے اعتماد میں اضافہ ہرگز نہیں ہو گا۔
اِس معاملے کے حل کو اکتوبر یا دسمبر تک کے لئے ملتوی کرنے کا اقدام محض یہ ظاہر کرتا ہے کہ یورپی قائدین کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ مانا کہ یونین کے ڈھانچے میں اصلاحات کے حامل لزبن معاہدے کے نفاذ کی جلد از جلد ضرورت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اِس معاہدے کی تمام ستائیس رکن ملکوں کی جانب سے توثیق ممکن بھی ہے!
غالباً لزبن معاہدے کا انجام بھی اُس مشترکہ آئین جیسا ہونے والا ہے، جسے تین سال پہلے فرانس اور ہالینڈ میں منعقدہ ریفرینڈمز میں مسترد ہونے کے بعد بالآخر دفن کر دیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اِس لزبن معاہدے کی منظوری سے قطعِ نظر توانائی، تارکینِ وطن اور دفاع کے شعبوں میں اپنے سیاسی اہدف حاصل کرنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا دیگر یورپی قائدین بھی اُن کی تقلید کیں گے یا مختلف بحرانوں کی آڑ لے کر بچنے کی کوشش کریں گے۔
لزبن معاہدہ کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ جو پلک جھپکنے میں یونین کے سارے مسائل حل کر دے گا۔ یونین کو مؤثر طور پر چلانے کے لئے اگر درحقیت یورپی کونسل کے کسی مستقل صدر یا وزیر خارجہ کی ضرورت ہے تو ایسا کسی بڑے معاہدے کے بغیر بھی تمام ستائیس رکن ملکوں کے متفقہ فیصلے سے ممکن ہے۔ ہاں یونین کے رکن ممالک کی تعداد میں اضافے کا مسئلہ ضرور پیچیدہ ہے۔
جہاں جرمنی اور فرانس جنوبی فرانس کے شہر نِیس میں طے ہونے والے معاہدے کی روشنی میں اراکین کی زیادہ سے زیادہ مقرر کردہ حدوں پر قائم رہنے پر اصرار کرتے ہیں، وہاں دیگر اراکین اِس معاملے میں سختی کے قائل نہیں ہیں۔ جیسے جیسے کروشیا کی ممکنہ رُکنیت کی تاریخ یعنی دو ہزار دَس قریب آ رہی ہے، ویسے ویسے یونین میں توسیع کے موضوع پر اختلافات بڑھنے کا خدشہ ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اپنے اراکین کی تعداد میں مسلسل اضافہ کر کے کہیں یورپی برادری خود کومفلوج تو نہیں کر دے گی۔